کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 21
من قبیل التفسیر [1] کے ہونے کے اختلاف کے وقت ان کی طرف رجوع کیا جاسکے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان مصاحف میں اس نص کو باقی رکھا ہے جو عرضہ اخیرہ(جبریل امین کے آخری دور) میں ثابت تھی اور اس کو انہوں نے منسوخ شدہ آیات اور اسی طرح صحابہ کرام کی تفسیری تعلیمات ،احکام اور اسباب نزول وغیرہ سے خالی کر دیا تھا کہ اگر یہ اسی طرح بعد والوں کے پاس پہنچ جاتے جو جلانے سے پہلے تھے تو ان حاشیہ جات سے قرا ت قرآنیہ کا وہم پیدا ہوجاتا ۔ (یعنی ان کو قراء ات سمجھ لیا جاتا)
پس مصاحف عثمانیہ خمسہ کا یہی فائدہ ہے کہ جب صحابہ کرام کے سینوں میں محفوظ مختلف روایات کسی علاقہ کے لوگوں کے پاس پہنچیں چاہے وہ صحیح سند کے ساتھ ہی ہوں تو ان روایات کو ان مصاحف پہ پیش کیا جائے اگر یہ مصحف امام کے موافق ہوں تو ان کو قبول کر لیا جائے ورنہ چھوڑ دیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ رسم مصحف متو اتر قرأت کا اہم رکن قرار پایا۔ ابن جرزی فرماتے ہیں ۔
جو قرأت ہو وجہ نحوی کے مطابق
رکھتی ہو رسم عثمانی کی متابعت
سند صحیح ہے تو ہے قرآن
یہی تین ہیں قرأت کے ارکان
خلل جو آجائے ان ارکان میں
قرأت ہو گی شاذ چاہے ہو سات میں٭
[1] اس کی مثال ابن جریر کی روایت ہے کہ مصحف عائشہ میں (حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَهِيَ صَلَاةُ الْعَصْرِ) لکھا ہوا تھا۔ پس یہ روایت واضح کرتی ہے کہ (صَلَاةُ الْعَصْرِ) کی زیادتی جیسا کہ حضرت عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما سے صحیح مسلم میں ہے، تفسیر سے تعلق رکھتی تھی اور منسوخ حرف کی مثال برا بن عازب کی روایت صحیح مسلم میں ہے کہ ﴿ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَ صَلَاةُ الْعَصْرِ ﴾ یہ آیت نازل ہوئی تو جب اللہ تعالیٰ نے چاہا ہم اس کو پڑھتے رہے پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو منسوخ کر دیا ۔ (مختصر)
٭ ابن جزری رحمہ اللہ کے اشعارکاترجمہ شعری شکل میں ہی راقم کی طرف سے پیش کردیاگیاہے۔(مترجم).