کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 20
یا یہ لوگ پہلے سے ان شہروں میں قیام پذیر تھے اور ان کو انہوں نے اس کا م پر مقرر کر دیا ، مقصد یہی تھا کہ لوگ انہی قراء سے قرا ت پڑھیں جیسا کہ لوگوں نے ان کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام اور آئمہ تابعین سے بھی قراءت اخذ کی۔ پس انہوں نے خط عثمانی کی موافقت کی اور علاوہ کو چھوڑ دیا، یہی پانچ علاقے اس وقت مسلمانوں کے مشہور شہر شمار ہوتے تھے اور یہی بعد میں علم و روایت کے مصادر ، عدالت و سلطنت اور ثقافت و بہبود کے مراکز قرار پائے ۔
یہاں کے رہنے والے ایسے عظیم قراء بنے کہ ان کی اقتدا کی جانے لگی جس بات پہ وہ متفق ہوئے وہ حجت ٹھہری اور جس کو انہوں نے قبول نہ کیا وہ مردود و متروک ٹھہری ، پس جب (قراء ۃ عامۃ) کہا جاتا ہے تو صرف یہی مراد ہوتے ہیں۔ ایسے ہی جب (قراء ۃ جماعۃ) کہاجاتا ہے تو انہی کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔
کبھی اس اصطلاح سے اہل علاقہ کی قراءت مراد لی جاتی ہے کیونکہ یہاں کے باشندے ان قرأت میں سے کوئی چیز چھوڑتے نہیں تھے۔ اور کبھی اس سے مراد صرف اہل مدینہ و کوفہ کی قرأت مراد ہوتی ہے۔ ان تمام اصطلاحات کو علم و بصارت رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں۔ [1]
پس اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ اگر معاملہ اس طرح ہے کہ صرف مصاحف پہ اعتماد ناکافی ہے اور قراء ات مقرئین سے مشافہتاً اور سماعاًقبول کی جائے گی تو ان پانچ مصاحف کو لکھوانے کا کیا فائدہ جو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے لکھوا کر ان شہروں کی طرف روانہ کیے؟[2]
تو ہم یہ جواب دیں گے کہ ان مصاحف کا مقصد بطور قانون اور مدون ضابطہ کے تھا جو لکھے ہوئے ہوں اور ثابت یا ناسخ و منسوخ کے اختلاف کے وقت اور قرآن یا عدم قرآن بلکہ
[1] دیکھیے: ’’الإبانۃ عن معانی القراء ات‘‘ ص101.
[2] یہ بھی روایت کیا جاتا ہے خلیفہ راشد نے سات مصاحف ارسال کیے جن میں ایک یمن اور دوسرا بحرین کی طرف اگر یہ صحیح ثابت ہو جائے تو پھر ان دونوں کو وہ پذیرائی حاصل نہ ہوسکی جو دوسرے پانچ کو ہوئی جو مراکز علم کی طرف بھیجے گئے.