کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 198
حافظ ابو عمرو دانی[1] اپنی سند سے عبداللہ بن کثیر عن درباس٭ مولی ابن عباس رضی اللہ عنہ اور وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اور وہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ﴿قُلْ أَعْوُذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ پڑ ھتے تو ’’ الحمد ‘‘ سے شر و ع فرمادیتے پھر بقرہ کی ﴿وَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ تک تلاوت کر تے پھر ختم قرآن کی دعا کر تے اور کھڑ ے ہوجا تے۔[2] دانی نے اپنی سند سے اعمش عن ابراہیم [3] روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں (صحابہ رضی اللہ عنہم ) اس با ت کو مستحب سمجھتے تھے کہ جب قرآن ختم ہوتو شروع سے آیا ت کی
[1] دانی جامع البیان (ق 373 /ب) میں فرماتے ہیں: میں نے عبدالعزیز بن محمد پہ قرا ت کی عن عبدالواحد بن عمر، قال ثنا العباس بن احمد العنبری ، قال ثنا عبدالوہاب بن فلیح المکی ، قال ثنا عبدالملک بن عبداللّٰه بن مسعوۃعن خالہ ، وہب بن رفعۃ بن صالح عن عبداللّٰه بن کثیر۔۔۔۔۔ اور فرمایا: أخبرنی ابوالحسن علی بن محمد الربعی، قال ثنا علی بن مسرود قال ثنا احمد بن ابی سلیمان قال ثنا سحنون بن سعید ، قال ثنا عبداللّٰه بن وہب قال اخبرنی ابن لہیعۃ عن ہشام بن سعد عن زید بن اسلم أنَّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم سئل أیّ الاٰعمال افضل؟ فقال: الحال والمرتحل۔ ابن وہب کہتے ہیں: میں نے ابوحیان مدنی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا: یہ خاتمہ قرآن مع ابتداقرآن ہے. [2] دیکھیے النشر ابن جرزی اس روایت کو انہوں نے صالح المری سے بہت سی اسانید کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اور انہی پر ہی زیادہ کلام کی ہے۔ (2/441-450) ٭ مجہول راوی ہے۔جس بنیادپرحدیث ضعیف ہے۔یادرہے کہ یہ مسئلہ اختلافی واجتہادی ہے نہ کہ قطعی کہ جس پرضلالت اوربدعت کافتوی لگایاجائے۔بحث کوطول دیے بغیرامام جزری رحمہ اللہ کاخلاصہ پیش خدمت ہے ،وہ فرماتے ہیں: بہرحال ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ قاری پرلازم ہے بلکہ ہم وہی کہیں گے جوہمارے امام فارس بن احمدوغیرہ نے کہا ہے ’’من فعلہ فحسن ومن لم یفعلہ فلاحرج علیہ‘‘ جس نے کیااس نے اچھاکیا،اورجس نے نہیں کیاکوئی حرج نہیں۔ (النثر ص704) مترجم. [3] ابراہیم نخعی.