کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 196
پھر یہ سنت تمام بلاد اور ہر علاقہ کے قراء کے ہاں ثابت ومشہور ہے اور وہ اس پر عمل کرتے ہیں جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں۔ لہٰذایہ سنت اس قدر مشہورہے کہ اس کو اسناد کے ساتھ ثابت کر نے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ [1] ابن جزری فرماتے ہیں اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ تکبیرات مکہ کے قراء علماء آئمہ اور ان کے راویوں کے ہاں اس قدر صحیح مشہوراور عام ہے کہ تواتر کی حد کو پہنچتی ہے یہ روایت موسیٰ کی ابو عمرو سے، عمری کی ابو جعفر سے بالکل صحیح ہے تمام قراء سے یہ عمل منقول ہے یہ امام ابو الفضل رازی ، ابوقاسم ہذلی ، حافط ابو علا سے بھی مر وی ہے اسی پہ تمام قراء کا تمام علاقوں میں عمل ہے وہ ختم قرآن کے وقت محافل اوراجتماعات پہ بھی اس پہ عمل کر تے ہیں بلکہ ان میں سے اکثر تو رمضان المبارک کی راتوں میں نماز تراویح میں اس کو کسی حال میں بھی نہیں چھوڑ تے۔ [2]
[1] جب روایت کی سند ضعیف ہو لیکن اہل علم نے اس معنی کو قبول کیا ہوتواس کا ضعف نقصان دہ نہیں ہو تا ۔ اہل علم کا عمل اس کی صحت کی علامت بن جاتا ہے ، یہی حال سنت تکبیر کا ہے کیسے ابن کثیر نے اہل مکہ کے عمل سے اس کی صحت کودلیل بنا یا ہے اورا یسے ہی امام شافعی کی کلام سے اس قاعدہ کی اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ خطیب بغدادی ( الفقیہ والمتفقہ 1/189) طبع شیخ اسماعیل انصاری میں فرماتے ہیں اور یہ کلام قضاکے مسئلہ میں حدیث معاذکے ضمن میں ہے ۔ بیشک اہلِ علم نے اس کو قبول کیا ہے ۔ اور اسے دلیل بھی بنا یا ہے توہم اس کی موافقت میں ان کے ہاں صحت حدیث کی بات ہی کریں گے اور ایسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ( لاوصیۃ لوارث ) اور سمندر کے متعلق آپ کا فرمان ( ھوالطھور) اور آپ کاقول (اذ اختلف المتابیعان فی الثمن ۔۔۔) اور آپ کا فرمان ( الدیۃ علی العاقلۃ ) تویہ حدیثیں اگرچہ سنداً ثابت نہیں لیکن جب انہوں نے ان کو قبول کر لیا تو گو یا صحت اسناد سے مستغنی ہو گئے ۔ ابو مجاہد کہتے ہیں یہاں مسئلہ تکبیرمیں بھی یہی حکم ہے باوجودیہ کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوفاً ثابت بھی ہے اور اگر نہ بھی ہوتا تو تلقی بالقبول ہی اس کیلئے کافی تھا جیساکہ امام شافعی کی کلا م سے ظاہر ہوتاہے۔( مختصر). [2] لنشر: 2/410.