کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 195
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت چھوڑدی۔[1] ابومحمد حسن قرشی[2] کہتے ہیں میں نے مقام ابراہیم کے پاس مسجد حرام میں لوگوں کو نماز تراویح کی امامت کروائی ختم قرآن کی رات ’’ والضحیٰ ‘‘ سے آخر تک میں نے نماز میں تکبیرات کہیں ، جب میں نے سلام پھیرا تو ابوعبداللہ محمدبن ادریس شافعی بھی میرے پیچھے نمازیوں میں تھے ، انہوں نے مجھے دیکھا اورکہا: شاباش تم نے سنت پر عمل کیا ہے۔[3] حافظ ابن کثیر[4] اپنی تفسیر میں امام بزّی کی روایت کے بعد یہ روایت ذکر کر تے ہوئے کہتے ہیں اور یہ عمل حدیث کے صحیح ہونے کی علامت ہے ۔
[1] دانی فرماتے ہیں: حدثنا فارس بن احمد قال ثنا ابوالحسین المقریٰ: قال ثناا علی بن محمد الحجازی الی آخر الا سناد ( معرفۃ القراء 1/327). [2] الحسن محمدبن عبداللہ بن ابی یزید ابو محمدمکی۔ (غایۃ النہایۃ 1/232). [3] ابوبکر احمدبن موسی ٰ بن مجاہدنے اس کو روایت کیا ہے عن ابی محمد مضرین محمدبن خالد الضبی عن حامدین یحیٰی بن ھانی البلخی نزیل طر سوس عن الحسن بن محمد بن عبداللّٰه بن ابی یزید ابی موسی ٰ القریشی لمکی اس کو اہوازی نے بھی روایت کیا ہے عن ابی الفرج محمدبن احمدبن ابراہیم الشنبودی عن ابی شنبود عن مضر ۔ قلت:… ابن شنبو ذ: محمد بن احمد بن ایوب بن صلت ابن شنبوذ ہیں ابو الحسن راوی ان کی حالا ت زندگی خطیب بغدادی نے ذکر کیے ہیں اور قراء ت شاذہ سے ان سے طلب توبہ کا واقعہ بھی لکھا ہے تاہم ان پہ جر ح نہیں کی۔ ( تاریخ بعداد 1/280) شنبوذی: یہ غلام شنبوذ سے مشہور ہیں ان کا نام ابوالفرج محمدبن احمد بن ابراہیم ہے خطیب کہتے ہیں قراء ت میں ان کی کتابیں ہیں ان کی روایات میں کلام ہے۔ ( تاریخ بغدادی 1/271) حا مد: بن یحییٰ البلخی ابو عبداللہ ثقہ حافظ ہیں ۔ ( تقریب التھذیب 1/146) مگر حسن بن محمد مکی ضعیف ہے ان کی شافعی سے روایت بوجہ روایت بزّی معتبر ہے. [4] تفسیر ابن کثیر (2/552) اور حافظ ابن کثیر کی کلام اس بات کی دلیل ہے کہ ابو محمد حسن بن محمد قریشی مکی کی روایت قابل قبول ہے ، اور یہ روایت نماز میں بھی تکبیر ات کہنے کی دلیل ہے جیساکہ ابن جریج کی کلام میں گز ر گیا ہے.