کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 19
اور آپ نے فرمایا:
’’ جو چاہتا ہے کہ قرآن مجید کو اس کی اصل کیفیت میں پڑھے جیسے وہ نازل ہوا ہے تووہ ابن أم عبدیعنی عبداللہ بن مسعود کی قرات پہ پڑھے ۔‘‘ [1]
آپ نے اپنے صحابہ میں چند چنیدہ لوگوں کا انتخاب کیا کہ وہ لوگوں کو مکمل یا کچھ قرآن پڑھائیں تاکہ لوگ اس کی ادائیگی اور کیفیت قرا ت میں ماہر ہو سکیں ۔ پس امت نے انہی حضرات سے مشافہتاً قرآن مجید کو نقل کیا ہے۔
اگرچہ خلیفہ راشدعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے پانچ مصاحف لکھوائے اور مہاجرین و انصار کے اتفاق سے باقی کو جلا٭ کر مشہور مسلم ممالک کی طرف ایک ایک مصحف روانہ کیا جن میں مکہ ، شام، کوفہ اور بصرہ ہیں تاہم قرآن مجید کو صرف مصاحف سے حاصل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مصحف غیر ناطق ہے اس سے کیفیت ِادا اور طریقہ قرا ت کیسے ممکن ہو گا ؟
لازمی بات ہے کہ یہ کیفیات اور صفات صرف سماع کے ذریعے ہی ممکن ہیں ۔ خط چاہے کتنا عمدہ ہی کیوں نہ ہو کیفیات ادا سے عاجز ہے، اور یہی وجہ ہے کہ خلیفہ راشد نے صرف مصاحف بھیجنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ہر مصحف کے ساتھ ایک متقن حافظ اور مُقری کو بھی روانہ کیا اور آپ کا یہ انتخاب اس قدر دقت اور عمدگی سے تھا کہ جس سے آپ کا قراءت کے امور پہ ماہر ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔
بلا شبہ آپ بنفس نفیس قراءت کے آئمہ صحابہ میں سے ایک ہیں۔
پس اہل کوفہ کو قرآن پڑھانے والے ابو عبدالرحمن سلمی رضی اللہ عنہ ، اہل بصرہ کو ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ، اہل شام کو مغیرہ بن اَبی شہاب فخروی اور اہل مکہ کو عبداللہ بن سائب بن ابی سائب مخزومی] تھے۔ جبکہ اہل مدینہ کو قرآن پڑھانے والے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے۔
پس اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان حضرات کو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے روانہ کیا
[1] امام احمد نے اس کو اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔ دیکھے نمبر4340/4255طبع احمد شاکر.
٭ مصاحف جلانے کی حکمت آئندہ صفحات پر ملاحظہ فرمائیں۔