کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 188
نے کہا: ختم قرآن تک اب ہر سورت کے اختتام پر اللہ اکبر کہنا ۔ میں نے عبداللہ بن کثیر[1] پہ قراءت کی ہے جب میں ’’ والضحیٰ ‘‘ پہ پہنچا ، تو انہوں نے بھی مجھے ہر سورت کے اختتام پر تکبیر کا کہا اور مجھے یہ بھی خبر دی کہ انھوں ( ابن کثیر ) نے مجاہدپہ[2] پڑھا توانھوں نے بھی یہی حکم دیا اورمجا ھد نے کہا مجھے ابن عباس نے یہ حکم دیا ہے اور ابن عباس کہتے ہیں مجھے ابی بن کعب نے اس کا حکم دیا ہے جبکہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کاحکم دیا ہے ۔ بعض علماء نے اس حدیث کو بزّی کی[3] وجہ سے ضعیف کہا ہے جبکہ روایت تکبیر میں بزی کی قنبل سے متابعت ہے جن کا نام محمد بن عبدالرحمان ابوعمر المخزومی المکی ہے۔[4] حجاز کے قاریوں کے شیخ اور ابن کثیر کی قراءت کے راوی ہیں۔ وہ ان سے بزّی کی طرح بالاسناد ذکرکرتے ہیں اورتمام راوی بزّی سے بالاتفاق جبکہ قنبل سے بالاختلاف ذکر
[1] عبداللہ بن کثیر بن مطلب ابو معبدمکی الدار ی ، قراء ت میں اہل مکہ کے امام تھے قراء سبعہ میں سے ایک ہیں ۔ مکہ میں 45ھ میں پیدا ہوئے اور وہاں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ،ابو ایوب انصاری اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی عبداللہ بن سائب سے عرضاً قراء ت پڑھی ۔ مجاہد بن جبراورد رباس مولیٰ ابن عباس سے روایت کر تے ہیں ابن معین کہتے ہیں۔ ثقہ 120ھ میں فوت ہوئے ۔ ( معرفۃ القراء 1/86)(غایۃ النہایۃ1/ 443). [2] مجاہد بن جبر مخزوم مکی مکہ کے کبار تا بعین میں سے ہیں ۔ ت103ھ ( معرفۃ القراء 1/66) ( غایۃ النہایہ 2/41). [3] ابن ابی حاتم نے بزّی کے بارہ میں کہاکہ وہ حدیث میں ضعیف ہیں میں ان سے روایت نہیں کرتا، عقیلی نے منکر الحدیث کہا لیکن امام ذہبی نے ان اقوال کے بعد امام فی القراء ت ثبت فیھا لکھا ہے۔ ( میزان الاعتدال 1/144)،( الضعفا ء عقیلی) ،( معرفۃ القراء الکبار ذہبی 1/173) اس حدیث کو بزّی سے سند کے ساتھ اپنی اس کتاب میں ذکر کیا ہے. [4] قنبل195ہجری میں پیداہوئے ۔ابوالحسن قواس پہ قراء ت کی اوربزّی سے بھی قراء ت پڑھی۔ آپ سے بہت سے لوگوں نے علم قراء ت حاصل کیاان میں ابوبکربن مجاہد اورابوالحسن اورشنبودبھی ہیں۔ آپ کی وفات 291ہجری میں ہوئی۔ (معرفۃ القراء 1/330) (غایۃ النھایہ 2/165) مزیددیکھئیے ابوشامہ کی شرح شاطبیہ ص507جہاں شاطبی کایہ قول منقول ہے ’’وقال بہ البزی من اٰخرالضحی‘‘).