کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 18
یعنی لوح محفوظ میں ہے۔ پس کتاب کو مکتوب کے معنی میں بیان کیا گیا ہے، کیا اللہ تعالیٰ نے قلم کو قیامت تک ہونے والی ہر چیز کو لکھنے کا حکم نہیں دیا۔
پس جس طرح اس کلام الٰہی کی یہ خوبی ہے کہ یہ سینوں میں محفوظ پڑھی جانے والی کلام ہے، زبانوں پہ اس کی تلاوت عام ہے ایسے ہی یہ سطور میں لکھی ہوئی اور مصاحف میں منقول ہے۔
اس مقدمہ کا مقصد اس بات سے خبردار کرنا ہے کہ یہ قرآن اپنی عبارت،قراءت اور طریقہ ادائیگی کے ساتھ منقول ہے اس لیے اس کو صرف مصاحف میں لکھنا کافی نہیں سمجھا گیا بلکہ اس کو امت نے مشافہتاً قبول کیا ہے جس سے اس کی قرا ت اور ادائیگی کا طریقہ بھی معلوم کیا ہے کیونکہ ادائیگی اور تلاوت کی کیفیت بغیر سماع کے حاصل نہیں ہو سکتی ۔
یہ بات درست ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کتابت ِ قرآن کا حکم دیا جیسا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے:
((لَا تَکْتُبُوا عَنِیّ شَئْیًا سِوَی القُرْاٰن۔))[1]
’’ مجھ سے سوائے قرآن مجید کے کچھ نہ لکھو ۔ ‘‘ ٭
آپ نے یہ قرآن ان کو لکھوایا، کچھ کا تبین وحی خاص کیے جن میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور معاویہ بن أبی سفیان رضی اللہ عنہ بہت مشہور ہیں تاہم آپ نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ صحابہ کرام کو یہ حکم ارشاد فرمایا کہ وہ ماہرین قرا ت سے تلقی بالمشافہ کی پوری کوشش کریں اور اس کی تلاوت اہل فن سے کریں۔ان کو شمار کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
’’قرآن مجید چار اشخاص سے پڑھو ، عبداللہ بن مسعود ، سالم ، معاذ ، اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم ۔ ‘‘[2]
[1] صحیح مسلم: کتاب الزھد، حدیث رقم2298.
٭ یہ حکم ابتدائی زمانہ رسالت کاتھا جب حفاظ وکاتبین کی کمی اورقرآن وحدیث کے اختلاط کاڈرتھاجب یہ عذرختم ہوگیاتوآپ نے کتابت حدیث کابھی حکم جاری فرمادیا۔
[2] صحیح بخاری: فضائل القرّان ،الفتح 9/46.