کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 17
لفظ (قرآن ) کا استعمال قراء ۃ کے معنی میں بھی ہے جیسے:
﴿وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِکَانَ مَشْہُوْدًا﴾ (الاسراء: 78)
’’اور فجر کا قرآن پڑھنا ، بے شک فجر کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے۔‘‘
گویا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ پر فجر کی قراءت لازمی ہے ، کیونکہ فجر کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے یعنی فجر کی قرات کے وقت دن اور رات کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔
زمخشری کہتے ہیں: ’’وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ‘‘ فجر کی نماز کو قرآن کہا گیا ہے جو کہ قرات ہے کیونکہ قرات رکن ہے جیسا کہ رکوع و سجود اور قنوت کو نام دیا گیا اور یہ ابن علیہ اور أصمّ کے قول کے خلاف دلیل ہے جو کہتے ہیں قراءت رکن نہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ اور بعض دیگر علماء کا خیال ہے کہ القرآن اسم غیر مشتق ہے یعنی کسی شے سے نہیں بنا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی کلام کا خاص نام ہے اسی لیے امام شافعی اس کو بغیر ہمزہ کے ادا کرتے تھے۔
میرا خیال ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ اس لیے اس کو بغیرہمزہ کے پڑھتے تھے کہ یہ اہل مکہ کی قرا ت ہے ابن کثیر مکی جو قراء سبعۃ میں سے ایک ہیں وہ اپنی قرا ت میں اس کو بغیر ہمزہ کے پڑھتے تھے اور ہمزہ قریش کی لغت بھی نہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ بھی قریشی ہیں تاہم اس کا قراءۃ سے مشتق ہونا اس بات سے مانع نہیں کہ یہ اللہ کی کلام ہے جو کہ اظہار اور بیان کے معنی میں ہے۔ خلاصہ یہی ہے کہ یہ اسم مشتق ہے جو کہ عَلَم ہو گیا۔
اور اس بات میں یہ بھی خصوصیت ہے کہ یہ کلام ایسی صفت سے متصف ہے کہ جو لوگوں کی زبانوں پر پڑھی جاتی اور تلاوت کی جاتی ہے بلکہ اس کی تلاوت باعث ثواب ہے ۔
اسی طرح اس کے نام (الکتاب) میں کہا جاتا ہے کہ وہ بمعنی مکتوب ہے اور یہ خود قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ ، فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ﴾ (الواقعۃ: 77، 78)
’’بے شک یہ قرآن بہت بڑی عزت والا ہے جو کہ ایک محفوظ کتاب میں درج ہے۔‘‘