کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 165
میں طوال مفصل پڑھا کرو۔[1] امام نوو ی فرماتے ہیں: نمازوں میں قراءت کی مقدار کا اختلاف اہل علم کے ہاں اپنی ظاہر پر ہے یعنی فجر اور ظہر کی نماز میں طوال مفصل پڑھنا سنت ہے تاہم صبح کی نماز زیادہ لمبی ہو عشااور عصر کی نماز میں اوساط مفصل اور مغرب کی نماز میں قصار مفصل پڑھی جائیں ۔ (علماء) فرماتے ہیں: فجر اور ظہر کی قراءت کو لمبا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اس وقت قیلولہ،یا رات کی نیند کی غفلت ہوتی ہے تو لمبی قراءت سے لوگ نماز کو مل جائیں گے جب کہ عصر کی نماز ایسی نہیں وہ لوگوں کے کام کاج اور محنت و مشقت سے تھکاوٹ کا وقت ہے تو وہ نماز بھی ہلکی ہے اور مغرب کی نماز کا وقت بہت تنگ ہے تو اس میں تخفیف کی اور زیادہ ضرورت ہے، اسی وقت میں روزے دار کی افطاری اور مہمانوں کی مہمان نوازی بھی ہے ، اور عشا کی نماز نیند اور اونگھ کے غلبہ کا وقت ہے تاہم یہ وقت وسیع ہے تو یہ عصر کے مطابق ہے۔[2] اجمالی طور پر قراءت میں یہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ البتہ تفصیلی مسئلہ درج ذیل ہے۔ فجر کی نماز:ابوہریرہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔[3] عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
[1] مصنف عبدالرزاق (2/104) علی بن زید بن جدحان ضعیف ہے لیکن اس حدیث کے شواہد موجود ہیں. [2] شرح النووی علی مسلم (4/174) ، المفصل قرآن مجید کا آخری حزب ہے۔ طیبی کہتے ہیں: اس کی ابتدا سورہ حجرات سے ہے اور اس کو اس لیے مفصل کہتے ہیں یہ چھوٹی چھوٹی سورتیں الگ الگ کلام کی طرح ہیں۔ قلتُ: مفصل کی ابتداء میں ان کا یہ قول راجح ہے ورنہ اس مسئلہ میں دس قول ہیں جن کو فیروز آبادی نے القاموس میں ذکر کیا ہے۔ مفصل کی تین قسمیں ہیں: طوال ، اوساط ، قصار، ان کی حد بندی میں علماء کا اختلاف ہے۔ حنفیہ کے ہاں طوال (حجرات) سے (البروج) تک، اوساط (البروج) سے (لم یکن) تک ، اورقصار (لم یکن) سے آخر قرآن تک ہے۔ مالکیہ کے ہاں طوال (حجرات) سے (النازعات) تک اوساط (عبس) سے (واللیل) تک اورقصار (والضحیٰ) سے آخر تک، حنابلہ کے ہاں طوال (ق) سے (عم) تک اوساط (عم) سے (والضحی) تک جب کہ قصار یہاں سے آخر تک ہیں۔ (الفتح الربانی(3/27). [3] متفق علیہ: البخاری (1/187) مسلم (1/338/461).