کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 163
کی خدمت میں حاضر ہو کر اس بات کی خبردوں گا، پس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور فرمایا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھیتی کو پانی لگانے والے لوگ ہیں دن بھر کام کرتے ہیں جب کہ معاذ آپ کے ساتھ عشا کی نماز پڑھتے اور پھر ہمیں امامت کرواتے ہیں جس میں سورہ بقرہ شروع کر دی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم معاذ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے معاذ کیا تو شرانگیز بننا چاہتا ہے، فلاں فلاں سورت کی تلاوت کیا کر۔ [1] لیکن ذرا س بات پر غور کیجیے کہ انس رضی اللہ عنہ کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کرتے ہیں ہلکی اور مکمل اور یہی میزان تخفیف ہے ان لوگو ں کی طرح نہیں جو سست مزاجی سے کام لیتے ہیں اوریہی چاہتے ہیں اور نہ ہی ان نمازیوں کی طرح جوٹھونگے لگانے والوں کی نماز پڑھتے ہیں اور ہمیشہ قصار مفصل کی عادت اپنائے ہوئے ہیں جب کہ رکوع و سجود میں بھی اطمینان نہیں۔ آپ نے ایسی نماز کا انکار فرمایا ہے اور ایسے شخص کو کہا ’’جاؤ نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘[2] زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مروان بن حکم کو قصار مفصّل کی قراءت پر ہمیشگی کرتے ہوئے دیکھا تو ان کا انکار کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت میں دوسری رکعت کی نسبت لمبی قراءت فرماتے جیساکہ ابو قتادۃ انصاری کی روایت میں ہے۔ [3]
[1] بغوی کہتے ہیں (فتان) کا معنی لوگوں کو دین سے ہٹا کر گمراہی کی طرف لے جانا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔ ﴿وَمَاأَنْتُمْ عَلَیْہِ بِفَاتِنِیْنَ﴾. [2] بخاری کتاب الصلاۃ ( 1/184). [3] متفق علیہ: البخاری (1/189) ،مسلم (1/ 333/451) اور سعد بن ابی وقاص کی صحیحین میں اس طرح روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے ان سے کہا: لوگ ہر مسئلہ میں آپ کی شکایت کرتے ہیں حتی کہ نماز کی بھی؟ تو انہوں نے کہا: میں توپہلی دو رکعتوں کو لمبا کرتا ہوں اور دوسری دو کو مختصر، اور مجھے اس مسئلہ میں کسی کی کوئی پرواہ نہیں کیوں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداکرتا ہوں ، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ سچ کہتے ہیں، میرا بھی آپ کے متعلق یہی گمان تھا۔ اوریہ چار رکعتوں والی نماز میں ہے کیوں کہ پہلی دو رکعتوں میں استفتاح کے بعد فاتحہ اور دوسورتیں ہیں جب کہ دوسری دورکعتیں مختصر ہوں گی کیوں کہ ان میں صرف فاتحہ ہے.