کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 16
’’الٓر ۔ یہ کتاب الٰہی اور کھلے اور روشن قرآن کی آیتیں ہیں۔ ‘‘
(القرآن ) کا معنی المقروء یعنی پڑھی جانے والی کتاب ہے اور وہ اسم مفعول بمعنی مصدر کے فُعْلاَن کے وزن پہ ہے جیسے رُجحان اور غُفران۔ اور اس کا مادۂ (قرأ) ہے۔جس کا معنی ہے ظاہر کرنا اور واضح کرنا ۔ پس قاری قرآن مجید کو اپنے منہ سے ظاہر کرتا ہے۔ اس کو واضح کرتے ہوئے نکالتا ہے۔ اور یہ معنی اہل عرب کے اس قول سے ماخوذ ہے۔ ’’مَاقَرأَتِ النّاقۃُ سَلًّاقَطّ‘‘ یعنی اونٹنی نے بچہ جنا نہ حاملہ ہوئی۔
پڑھنے والا قرآن کا تلفظ ادا کرتا ہے اور اس کو سناتا ہے پس اسی سے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے۔ اس قول کو قطرب نے حکایت کیا ہے ۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ قرأت اس کے متعلق ہوتی ہے، اور اس سے تلاوت ہوتی ہے یعنی اس کے بعض حصوں کی بھی قرأت کی جاتی ہے۔
بعض دوسرے اہل علم کا خیال ہے کہ اس کا معنی ہے جمع کرنا ، ہروی کہتے ہیں ہروہ چیز جس کو آپ نے جمع کیا اس کو قرأت کیا ۔
ابو عبید فرماتے ہیں:قرآن کو اس لیے قرآن کہتے ہیں کہ اس میں مختلف سورتیں جمع ہیں ۔
راغب کہتے ہیں: قرآن کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں سابقہ آسمانی کتابوں کے فوائد جمع ہیں۔ لیکن اس قول کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان رد کرتا ہے:
﴿اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ﴾ (القیامۃ: 17)
’’اس کا جمع کرنا اور ( آپ کی زبان سے پڑھنا) ہمارے ذمہ ہے۔‘‘
پس جمع اور قرآن میں فرق کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس کا مادۃ قرأظاہر اور واضح کرنے کے معنی میں ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
مذکورہ آیت کریمہ کا معنی یہ ہے: اس کو آپ کے دل میں زبانی جمع کرنا اور آپ کا زبان سے تلاوت کرنا ہمارے ذمہ ہے یعنی آپ کو اس کی تلاوت اور قرا ت کی تعلیم دینا ہماری ذمہ داری ہے۔