کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 158
پھر دوران تلاوت اس کا ارادہ کسی اور سورت کا بن جائے تو جائز ہے البتہ ابتدا سے ہی اگر کوئی مختلف آیات سے پڑھنا چاہے اور ترتیب قرآ ن کاخیال نہ رکھے تو ہمارے ہاں یہ اہل علم کا عمل نہیں بلکہ جاہلوں کی عادت ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہتے تو ایسے نازل فرما دیتے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح تلاوت فرماتے۔ ابو مجاہد کہتے ہیں: یہ روایت جس کو ابو عبید نے ذکر کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر معمول یہی ہے، کہ آپ سورت مبارکہ کو اسی طرح تلاوت فرماتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداو اتباع میں سلف صالحین کا بھی یہی عمل تھا تا ہم کبھی کبھار آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سورت سے کچھ آیات تلاوت فرماتے اور کچھ دوسری سورت سے ۔ صحیح مسلم میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی دو رکعتوں میں سے پہلی میں سورہ بقرہ کی آیت ﴿قُوْلُوْاٰمَّنَا بِاللّٰہِ……﴾ (البقرۃ: 136) اور دوسری رکعت میں اسی سورت کی آیت ﴿اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَاشْہدَ بِأَنَّا مُسْلِمُوْنَ﴾ (آل عمران: 52) کی تلاوت کی۔ اور ایک روایت میں ہے آپ کی فجر کی دو رکعتوں میں ﴿قُوْلُوْاٰمَنَابِاللّٰہ وَمَااُنْزِلَ إِلَیْنَا…﴾ اور پھر اٰل عمران کی آیت ﴿تَعَالَوْ اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ﴾ (آل عمران: 64) کی تلاو ت کرتے۔ پس یہ حدیث مبارک اس کے جواز کی دلیل ہے اگرچہ افضل یہی ہے کہ سورت کو اس کی اصلی حالت کے مطابق ہی یعنی ترکیب و ترتیب سے پڑھا جائے یہ قرآنی ترتیب کے زیادہ مناسب ہے۔ قاری کے لیے مکروہ ہے کہ وہ ترتیب سور کی مخالفت کرے اگر وہ پہلی رکعت میں ﴿ قُلْ أَعُوذُبِرَبِّ النَّاسِ﴾ اور دوسری میں ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ پڑھے تو ڈر ہے کہ وہ اس شخص کی طرح نہ ہو جائے جو قرآن کو الٹا پڑھتا ہے۔ [1]
[1] اور یہ حدیث امام مسلم نے روایت کی ہے۔ (صحیح مسلم ، صلاۃ المسافرین2/ 502/727.