کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 156
’پس جب کہ صور میں پھونک ماری جائے گی ۔ تو وہ دن بڑا سخت ہو گا۔‘‘ یہ پڑھ کر وہ گرے اور فوت ہو گئے بہنر کہتے ہیں: میں ان لوگوں میں تھا جنہوں نے ان کو اٹھایا۔[1] جب تو کسی صورت کی تلاوت کرے تو اسے پورا کیا کر: ابو عبید نے سعید بن مسیب کے طریق سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدناابوبکرصدیق کے پاس سے گزرے تو وہ بہت ہلکی آواز میں پڑھ رہے تھے، عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو وہ بلند آواز سے جب کہ بلال رضی اللہ عنہ کبھی اس سورت سے اور کبھی اس سورت سے تلاوت فرما رہے تھے، آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا میں تمہارے پاس سے گزرا تو آپ بہت دھیمی آواز سے پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے کہا: میں اپنے رب سے سرگوشی کر رہا تھا، آپ نے فرمایا: اپنی آواز کو تھوڑا بلند کر و پھر عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تمہارے پاس سے گزرا ہوں تو تم اونچی پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے جواب دیا میں شیطان کو دھتکار رہا تھا اور اونگھنے والوں کو جگا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: تھوڑا سا بلند پڑھو ، بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا ، میرا گزر تمہارے پاس سے ہوا تو تم کچھ اس سورت سے پڑھ رہے تھے اور کچھ اس سورت سے؟ تو انہوں نے جواب دیا: میں پاکیزہ کو پاکیزہ سے ملاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: (سورت کو اس کی اصل صورت پر ہی پڑھو) اور ایک روایت میں ہے: ( جب تم کسی سورت کو پڑھو تو اسے پورا کیا کرو۔) [2]
[1] طبقات ابن سعد (7/150) ،حلیۃ الاولیاء (2/285) قیام اللیل مروزی (المختصر 62 ص ) . [2] فضائل قرآن:38ص ، مصنف عبدالرزاق (490،2) مصنف ابن ابی شیبہ (55-10) اسی سیاق کے ساتھ محمد بن نصر مروزی نے قیام اللیل میں روایت کی ہے۔ ( مختصر66ص) اس روایت کو ترمذی (2، 39) اور ابو داؤد (9، 37، 1329) نے روایت کیا ہے دونوں نے ثابت البنانی عن عبداللہ بن أبی ریاح عن أبی قتادہ کے طریق سے اور دونوں نے اس میں بلال کا نام ذکر نہیں کیا۔ ابو داؤد نے عن أبی مسلم عن ابی ہریرۃ طریق سے بلال کا اضافہ کیا ہے اس کے الفاظ کچھ یوں ہیں: ( اے بلال میں تمہیں الگ الگ سورتوں سے تلاوت کرتے ہوئے سنتا ہوں تو انہوں نے وہی جواب دیا تو آپ نے فرمایا: (سب کچھ درست ہے) بیہقی نے شعب میں اسی طرح روایت کیا ہے(248،5) اور اس کو احمد نے مسند میں علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا تاہم انہوں نے بلال کی جگہ عمار کا ذکر کیا ہے۔ (فتح الربانی236،3) ان دونوں روایتوں میں انکار إقرا ر کا اختلاف ہے، ابوعبید والی روایت کو ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں، یہ میرے ہاں ثابت ہے اور یہی عمل علماء کے موافق ہے۔دیکھیے (شعب الایمان:2/238).