کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 155
سے ہی ہوگئی تھی۔ قتادہ رضی اللہ عنہ روایت ہے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ إِلَی ذِکْرِ اللّٰہِ﴾ (الزمر: 23) ’’جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں پھر ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں۔‘‘کی تلاوت کی تو فرمایا: یہ تو اولیا ء اللہ کی صفت ہے کہ ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، آنکھوں سے آنسوؤں جاری ہو جاتے ہیں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف مطمئن ہوتے ہیں نہ کہ ان کی عقلوں کا فقدان ہوتا ہے۔ اورنہ ہی ان پہ غشی کے دورے پڑتے ہیں جیسا کہ اہل بدعت کا حال ہے اور یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ [1] اسی وجہ سے تو اسلاف کہتے ہیں۔ ’’قرآن اس بات سے پاک ہے کہ وہ لوگوں کی عقلوں کو زائل کر دے۔‘‘ قُلت:… اگر ایسا اسلاف سے ثابت ہے تو یہ بہت قلیل و نادر واقعہ ہے ان سے اکثر و بیشتر ایسا نہیں ہوا اور شاید اس کی وجہ تکلف و تصنع نہیں بلکہ دلی کمزوری کی بناپر بعض دفعہ ایسا مسئلہ پیش آگیا ہو جیسا کہ ربیع بن خیثم کا ذکر گزر گیا ہے بہنر بن حکیم[2] کہتے ہیں:زرارہ بن اُوفی[3] نے قرآت کی اور وہ جامع مسجد[4] میں امامت کروارہے تھے: ﴿فَذَلِکَ یَوْمَئِذٍ یَوْمٌ عَسِیْرٌ ۔عَلَی الْکَافِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ﴾ (المدثر: 9، 10)
[1] عبدالرزاق فی التفسیر:2/172، تفسیر ابن کثیر:4/55 ،الدرالمنشور:5/326،325. [2] بہنربن حکیم بن معاویہ ابو عبدالملک قشیری ، بصری ۱۵۰ہجری سے قبل وفات پائی۔ (سیر اعلام النبلاء 6/253). [3] زرارۃ بن اُبی اُوفی حرشی، بصرہ کے قاضی اور امام ہیں، ابو حاجب عامری ، ابن سعد کہتے ہیں: ولید بن عبدالملک کی حکومت میں 73 ھ کو اچانک فوت ہوئے۔ (طبقات ابن سعد 7/150). [4] حلیۃ االاولیاء اور طبقات ابن سعد میں مسجد بنی قشیر کا ذکر ہے.