کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 154
کے صحابہ جب قرآن سنتے تو ان کا کیا حال ہوتا تھا؟ انہوں نے کہا: ان کی آنکھیں بہہ پڑتیں اور جسم کانپنے لگتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی صفت بیان کی ہے، کہتے ہیں میں نے پوچھا: اب تو یہاں ایسے لوگ ہیں کہ جب ان میں سے کوئی قرآن کی تلاوت سنتا ہے تو بے ہوش ہو کر گر پڑتا ہے، انہوں نے کہا: أعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم۔[1] سیدہ اسما رضی اللہ عنہا نے اس بات کا انکار اس لیے کیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ حال نہ تھا جیسا کہ عامر بن عبداللہ بن زبیر[2] جو عبداللہ بن عروہ کے چچازاد ہیں بیان کرتے ہیں: میں نے اپنی والدہ سے کہا: میں چند ایسے لوگوں سے ملتا ہوں کہ ان سے بہتر مجھے کوئی نظر نہیں آتا ، وہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں تو ان پر یوں لرزہ طاری ہوتا ہے کہ خشیت الٰہی سے بعض تو بے ہوش ہو کر گر پڑتے ہیں ، تو انہوں نے کہا: ایسے لوگوں کے پاس مت بیٹھا کرو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو قرآن پڑھتے سنا، ان کا تو یہ حال نہ ہوتا تھا کیا یہ لوگ ابوبکر و عمر سے زیادہ متقی ہیں؟[3] عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اہل عراق میں سے ایک شخص کے پاس سے گزرے جو گرا پڑا تھا، انھوں نے پوچھا اس کو کیا ہوا؟ لوگوں نے کہا: جب یہ قرآن مجید یا اللہ تعالیٰ کا ذکر سنتا ہے تو گر جاتا ہے، اس پر ابن عمر نے فرمایا: ہم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں جب کہ ہم میں سے کوئی نہیں گرتا، ان لوگوں کے پیٹوں میں شیطان داخل ہے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا عمل نہیں ہے۔ [4] اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ تلاوت قرآن یا سماعت تلاوت کے وقت بے ہوشی اور چیخ و پکار اہل بدعت کا عمل ہے اور ان میں سے اکثر بناوٹی رونا روتے ہیں جس کی ابتدا زمانہ صحابہ
[1] شعب الایمان بیہقی (5/24) تفسیر بغوی (4/77). [2] ابو حارث مدنی ، ثقہ ، عابد ،121ہجری میں وفات پائی۔ (تقریب 1/388). [3] الدرا لمنثور السیوطی (5/326). [4] تفسیر بغوی (4/77).