کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 152
’’جب وہ انھیں دور سے دیکھے گی تو یہ اس کا غصے سے بپھرنا اور دھاڑنا سنیں گے اور جب یہ جہنم کی کسی تنگ جگہ میں مشکیں کس کر پھینک دیئے جائیں گے تو وہاں اپنے لیے موت ہی موت پکاریں گے۔‘‘ راوی کہتے ہیں (یہ سن کر ) ربیع بے ہوش ہوگئے ہم انھیں اٹھا کر ان کے اہل خانہ کے پاس لائے تو ظہر تک عبداللہ بن مسعود نے انھیں اپنے ساتھ لگائے رکھا تا ہم انھیں افاقہ نہ ہوا۔ یہاں تک کہ مغرب ہوگئی تو وہ ہوش میں آئے اور عبداللہ اپنے گھر واپس پلٹے۔[1] یحییٰ بن اَبی کثیر[2] کہتے ہیں: کعب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کی قراءت، اس کی دعا اور رونا دھونا سنا تو وہاں سے یہ کہتے ہوئے گزرے، کیا خوب ہیں قیامت سے پہلے اپنے آپ پہ رونے والے ۔[3] نافع کہتے ہیں: ابن عمر رات کو نماز پڑھتے تو جب ایسی آیت سے گزرتے جس میں جنت کا ذکر ہوتا تو اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال اور دعا کرتے اور کبھی کبھی رو دیتے اور جب اس آیت کی تلاوت کرتے: ﴿أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ﴾ (الحدید: 16) ’’کیا مومنوں پر ابھی وقت نہیں آیا کہ وہ اللہ کے ذکر سے ان کے دل ڈر جائیں۔‘‘ تو رو رو کر کہتے کیوں نہیں میرے رب ، کیوں نہیں میرے رب ۔ ایک دن انہوں نے ﴿وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ﴾ کی تلاوت کی، جب اس آیت پر پہنچے: ﴿یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ ’’اس دن لوگ اپنے رب کے سامنے کھڑے
[1] فضائل قرآن ابو عبید:ص 23. [2] یحییٰ بن ابی کثیر یمامی ۔ ابو نصر بصری ، یمامۃ میں سکونت پذیررہے کسی صحابی سے ان کا سماع ثابت نہیں لہٰذا حدیث مرسل ہے۔ (مشاہیر علما الا مصار:191ص). [3] فضائل قرآن ابو عبید:ص 23.