کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 144
سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں میں نے معر بن کرام[1] سے سنا کہ عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے کہا مجھے کوئی وصیت کر دیجئے انھوں نے فرمایاجب تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿یٰأیھَّااَلَّذِیْنَ آمَنُوا…﴾ ‘‘ سنے تو اس کی طر ف اپنے کا ن لگالے اس سے بھلائی نصیب ہوگی یاشر کو دور کر دیا جائے گا۔[2] اس کے آداب میں سے یہ بھی ہے جس کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا تم میں سے جس نے ﴿وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُونِ﴾ کو ﴿أَلَیْسَ اللّٰہُ بِأَحْکَمِ الْحَاکِمِیْنَ﴾تک پڑھاتو اسے چاہیے ﴿وَاَنَا عَلیٰ ذٰلِکَ مِنَ الشَّاہِدِیْنَ﴾ کہے اور جو کوئی ﴿لَا أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَۃِِ﴾ کو ﴿أَلَیْسَ ذَلِکَ بِقَادِرٍ عَلَی أَن یُحْیِیَ الْمَوْتَی﴾ تک پڑھے تو اسے چاہیے ﴿بَـلٰی وَعـِزَّۃِ رَبِّـنَـا﴾ پڑھے اور جس نے ﴿وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفاً﴾ پڑھی اور ﴿فَبِأَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُونَ﴾ تک پڑھے تواسے ﴿آمنّا بِاللّٰہِ﴾ پڑھنا چاہیے ۔ [3] سیدناجابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی طر ف تشریف لائے اور انھیں شر وع سے آخر تک سورہ رحمن پڑھ کر سنائی وہ سب خاموش رہے تو آپ نے فرمایا میں نے لیلۃ الجنّ میں یہی سورت جنوں پہ پڑھی تو وہ تم لوگوں سے اچھا جواب دینے والے تھے جب میں نے ﴿ فَبِأَیِّ آلَاء رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان﴾ کی تلاوت کی تو وہ کہتے تھے اے ہمارے رب ہم تیری کسی نعمت کا انکار نہیں کر تے اور سب تعریفیں تیرے لیے ہیں۔[4]
[1] ابن ظہیر ہلالی عامری ابوسلمہ ، کوفہ کے اتباع التا بعین میں سے ہیں 50 1ھ، مشاہیرعلما ء الٔا مصار ابن حبان 169. [2] مسند احمد: کتاب الزھد 158، ابو نعیم حلیۃ الاولیاء:1/130،بیہقی شعب الایمان: 5/10. [3] سنن الترمذی: کتاب التفسیر:5/ 443/3347، ابوداؤد (887). [4] الترمذی:3291/399/5 اس موضوع کی عجیب بات یہ ہے کہ معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نے یمن میں صبح کی نمازپڑھائی اورسورہ نساء کی تلاوت کی جب وہ اس آیت پرپہنچے ﴿ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا ﴾ تو پیچھے سے ایک آدمی نے کہاام ابراہیم کی آنکھیں اب ٹھنڈی ہوئی ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/354).