کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 143
ہوں اور پوچھوکیوں؟ اس نے پوچھا توزید رضی اللہ عنہ نے فرمایاتاکہ میں اس میں خوب غور و فکر کروں اور اس سے اچھی طرح واقفیت حاصل کروں۔[1] ابوجمرۃ[2] سے روایت ہے کہتے ہیں میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دریا فت کیا ۔ میں بہت تیزی سے قرآن پڑھتا ہوں اور تین دن میں ختم کر دیتا ہوں توانہوں نے فرمایا میں ایک رات میں تدبر و ترتیل سے صرف سورۃ البقرہ پڑھوں تو جس طرح تو پڑھتا مجھے اس سے زیادہ پسند ہے۔ [3] عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے کہا میں مفصل ایک ہی رکعت میں پڑھ لیتا ہوں توانھوں نے فرمایا شعروں کی طرح تیز تیز ؟ کچھ لوگ قرآن یوں پڑھتے ہیں کہ وہ ان کی ہنسلیوں سے تجاوز نہیں کرتایہ تو تب ہی نفع دے گا جب دل میں اتر کر پختہ ہو جائے… الحدیث [4] اورایک روایت میں ہے انہوں نے کہا قرآن کو نہ تو شعروں کی طر ح تیز پڑھو اور نہ ہی ردّی کھجوروں کی طر ح بکھیر و بلکہ اس کی حیر ت انگیزیوں کے پاس ٹھہر کر اپنے دلوں کو رونق بخشو۔ ایک روایت میں ہے۔ قرآن پڑھو اور اپنے دلوں کو روشن کروتمہا را مطمع نظر سورۃ کو ختم کرنانہ ہو۔[5]
[1] امام مالک نے مؤطا میں (1/200)، عبدالرزاق نے مصنف میں (3/354) اور بیہقی نے شعب الایمان میں ذکرکیا ہے۔ (5/9). [2] نصر بن عمران ضبعی. [3] مصنف عبدالرزاق (2/489) اور بیہقی شعب الایمان (5/7). [4] صحیح مسلم:صلاۃ المسافرین ( 1/523). [5] مصنف ابن ابی شیبہ (2/521)شعب الایمان بیہقی (5/8 ).