کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 140
صلاۃ تراویح کی اس سنت کا مقصد قرآن کی تلاوت اور سماع ہے لہٰذا ایسے حفاظ کو مقدم کرنا چاہیے جو تجوید میں ماہر اور خوبصورت آواز کے مالک ہوں۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اختیار سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ انھوں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا ، جن کے متعلق فرمایا: أبی ہم میں سب سے بڑے قاری ہیں۔[1] ان (قراء ) کے اعمال میں سے مساجد میں چراغاں اور روشنی کرنا ہے۔ بالخصوص رمضان کی راتوں میں اور یہ فرحت و شادمانی کی اظہار کے لیے ہے۔ کہا جاتا ہے سب سے قبل عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مسجد نبوی میں ایسا کیا ہے۔[2]
[1] تقدم. [2] مساجد میں روشنی اور ان کو معطر کرنا ثابت ہے ’’ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلوں میں مسجد یں بنانے اور ان کو پاک صاف رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اس کو ابو داؤد ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ (شرح السنۃ بغوی:3/399) باقی رہا مسجدوں میں روشنی کے لیے فانوس و چراغاں تو اس کو ابو داؤد نے (1/125) ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے: کہتی ہیں میں نے کہا: یا ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بیت المقدس میں نماز کے متعلق بتائیے؟آپ نے فرمایا: جاؤ تو وہا ں جا کر نماز پڑ ھو ان دنوں وہاں جنگ جاری تھی ۔ اگر تم وہا ں نہ جاسکو تو تیل بھیج دوتاکہ وہاں روشنی کا انتظام ہوسکے۔اس کو ابن ماجہ (1/281) اور بیہقی نے سنن (0/30) میں روایت کیا ہے ۔ پس جب بیت المقد س میں لالٹین اور روشنی نما چیز یں لٹکا نا مستحب ہے تو مسجد حرم اور مسجد نبوی تو اس کا زیادہ حق رکھتی ہیں۔ ٭ یاد رہے مذکورہ روایت بوجہ انقطاع ضعیف ہے بعض علماء نے اس کومنکرکہاہے۔ اس مسئلہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی صحیح و صریح روایت یوں ہے: ’’مَا أُمِرْتُ بِتَشْیِبِیْدِالْمَسَاجِدِ‘‘ میں یہودیوں اور عیسیائیوں کی طرح مسجدوں کو سجانے اور جگمگانے سے منع کیا گیا ہوں اوردوسری روایت ابن عباس فرماتے ہیں: ’’لَتُزَخْرِفُنَّھَا کَمَا زَخْرَفَتِ الیَہُوْدُ والنَّصَارٰی ‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم میرے بعد مسجدوں کو یوں روشن کروگے جیسے یہودی اور عیسائی اپنے گرجا گھروں اور عبادت خانوں کو روشن کرتے ہیں۔ (مترجم).