کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 138
اگر کسی بستی والے اپنی مسجد میں تراویح کو ترک کر دیں تو انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت کو ترک کر دیا۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کتنی رکعات ہوتی تھیں؟ پس یہ بات ثابت ہے کہ انھوں نے ان کو گیارہ رکعات پڑھوائی ۔ اس کو امام مالک نے موطا میں محمد بن یوسف سے سائب[1] بن یزید کے طریق سے روایت کیا ہے، یہ بھی ثابت ہے کہ انہوں نے بیس رکعات بغیر وتر کے اور تئیس رکعات وتر کے ساتھ پڑھیں۔. سعید بن منصور نے ابن سنن میں یزید بن خصیفہ [2] سے عن السائب روایت کیا ہے۔ اسی طرح یزید بن رومان[3] اور عطا[4] سے بھی ثابت ہے۔[5] اس کے بعد دیگر تابعین کا عمل بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اس سنت نبویہ میں رکعات کی کوئی تعداد متعین نہیں ، جب تک دو دو رکعات ادا کی جائیں جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے (رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں) داؤد بن قیس[6] کہتے ہیں:میں نے ابان بن عثمان[7] اور عمر بن عبدالعزیز کی حکومت
[1] سائب بن یزید ، صحابی صغیر ۔ آپ مدینہ میں سب سے آخر میں فوت ہوئے۔ البتہ محمد بن یوسف کندی مدنی ہیں۔ سائب بن یزید ان کے چچا ہیں، ابن حبان نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے۔ ( تہذیب التہذیب:5359 ). [2] یزید بن عبداللہ بن خصیفہ کندی مدنی، ثقہ۔ (تقریب التہذیب:2/367). ٭بیس رکعات والی روایت مذکورہ میں لوگوں کے بیس پڑھنے کاذکرہے الفاظ یہ ہیں: ’’کان الناس یقومون فی زمان عمربن الخطاب فی رمضان بثلاث وعشرین رکعۃ‘‘ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ رمضان المبارک میں بیس تراویح پڑھتے تھے ۔ نہ کہ اس بات کاذکرکہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بیس پڑھانے کاحکم دیاجبکہ آٹھ رکعات والی روایت کی سندبالکل صحیح ہے۔سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ سے آٹھ رکعات ثابت ہیں جیساکہ آگے چل کے آرہاہے۔ (مترجم) [3] یزید رومان مدنی مولی آل زبیر ثقہ۔ ( تقریب التہذیب 2/346). [4] عطا بن أبی رباح، مکہ کے کبار تابعین میں سے ہیں. [5] بیس رکعات والی تمام روایات ضعیف ہیں۔ (مترجم). [6] داؤد بن قیس الفراء الدباغ ابو سلمان قرشی مولاہم مدنی ثقہ فاضل۔ (تقریب التہذیب1: 234 مشاہیر علماء الامصار ، ص:136. [7] ابان بن عثمان بن عفان ابو سعید یزید بن عبدالمالک کی حکومت میں فوت ہوئے۔ (مشاہیر علماء الأمصار ، ص:68).