کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 134
جبکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم تو اس سے بھی کم دنوں میں ختم فرماتے: سعد بن منذر انصاری کہتے ہیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین دن میں قرآن پڑھنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا، ٹھیک ہے، لہٰذا وہ ہر تین دن میں قرآن ختم کرتے تھے۔[1] عبدالرحمان بن عبداللہ بن مسعود اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ رمضان میں ہر تین دن میں قرآن ختم کرتے۔[2] البتہ ایک ہی رات میں قرآن ختم کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ ممانعت ہے جیساکہ پیچھے گزر چکا ہے کہ سات دن سے یا کم از کم تین دن سے پہلے قرآن ختم نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم یہ عمل بعض صحابہ اور بعض تابعین سے مروی ہے:ابن سیرین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ نائلہ بنت قرافصہ کلبیہ نے جب ( خارجی ) عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے لیے آئے تو کہا: ان کو شہید کرو یا نہ کرو یہ تو رات شب بیداری میں یوں گزارتے ہیں کہ ایک رکعت میں قرآن مجید پڑھ لیتے ہیں۔[3] اسی طرح کی روایت تمیم داری کی بعض تابعین کے متعلق ہے جیسے سعید بن جبر اور علقمہ نخعی وغیرہ [4] یہ اوراس طرح کی دیگر روایات کو[5] اس بات پہ محمول کیا جائے گا کہ ان حضرات کو تین دن سے کم میں ختم ِ قرآن والی روایت کی ممانعت کا علم نہ ہو سکا۔
[1] ابوداؤد:2/55. [2] فضائل قرآن ابوعبید:ص35. [3] فضائل القرآن ابو عبید ص 35: قال: حدثناہشا م ، أخبرنامنصورعن ابی سیرین اورحجاج عن ابن جریج روایت کرتے ہیں مجھے ابن خفیصہ نے سائب بن یزید سے بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے عبدالرحمان بن عثمان تیمی سے طلحہ بن عبداللہ کی نماز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: کیا تجھے شبیب نے عثمان کی نماز کے متعلق کچھ نہیں بتایا ؟ انہوں نے کہا: بتایا ہے کہ وہ مقام ابراہیم کے پاس ایک رکعت میں قرآن پڑھتے تھے. [4] ایضاً. [5] اس سے عجیب و غریب واقعہ ابو عبیدنے فضائل قرآن میں ص:36 پر ذکر کیا ہے کہ سلیم بن عتیر تجیبی ایک رات میں تین مرتبہ قرآن ختم کرتے اور تین مرتبہ بیوی سے ہمبستری کرتے وہ فوت ہوئے تو ان کی بیوی نے کہا: اللہ تجھ پر رحم کرے تو نے اپنے رب کو بھی راضی کی اور اپنے گھر والوں کو بھی راضی کیا، پھر بتایا کہ وہ ہر ختم قرآن کے بعد ان کے پاس آتے ، پھر غسل کر کے قرآن ختم کرتے ،(مختصر )شاید یہ باب الکرامات سے ہے نہ کہ اسباب سے ۔ ٭اس طرح کی کرامات کی عمومی طورپرکوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔ (مترجم).