کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 129
تلاوت کیا۔‘‘ راوی کہتے ہیں انہوں نے غالباً اس کو مغیرہ بن شعبہ سے روایت کیا ہے۔[1] اور اس کو حزب میں کرنے کی تقسیم نبوی کی دلیل اوس رضی اللہ عنہ کا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ کو یہ کہنا ہے:اس کو سات دنوں سے کم میں ختم نہ کرو۔[2] پس یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مجید کے ختم کرنے کی سب سے عمدہ ترتیب سات کی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ افضل عمل پر حریص ہوتے تھے۔ لہٰذا آپ کا حزب سات دن میں ختم کرنا ہے۔ باقی رہا اس کو تیس پاروں میں تقسیم کرنا تو اس کی دلیل عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک ماہ میں اس کو ختم کرو۔‘‘[3] قرآن مجید کتنی دیر میں ختم کرنا چاہیے؟ اس کی دلیل تو عبداللہ بن عمرو بن عاص کی مذکورہ روایت ہے جس کو بخاری مسلم ترمذی اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کیا مجھے صحیح خبر ملی ہے کہ تم ہمیشہ روزہ رکھتے ہو اور ہر رات قرآن ختم کرتے ہو؟‘‘ میں نے کہا ہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ کام خیرو بھلائی کے ارادہ سے کرتا ہوں، آپ نے فرمایا:
[1] ابو داؤد: (2/56). [2] متفق علیہ، آگے اس کا ذکر آرہا ہے. [3] زمانہ تابعین میں سے سب سے قبل جس شخص نے مصحف کی تقسیم ان اجزاء:احزاب، رباع ، خمس اور عشر پر کی ہے وہ نصر بن عاصم بصری ت90 ھ میں ان کے حالات (غایۃ النھایۃ للجزری:2/336 ) میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ سب سے قبل جس نے عجمی نقاط لگائے وہ یحییٰ بن یعمر عدوانی بصری ت90 ھ میں، ان کے حالات بھی (غایۃ النہایۃ:2/381 ) میں دیکھیے ۔جس نے سب سے پہلے نقاطِ اعراب کا کام کیا وہ ابو الاسود الدولی ظالم بن عمرو، ت 69ھ ہیں۔ہمارے ناقص علم کے مطابق جس نے اس کو تیس پاروں میں تقسیم کیا ہے اور پاروں کی ابتدا کی حد بندی کی ہے اس نے اس بات کا خیال نہیں کیا کہ قصہ اور معانی کا ما قبل سے ربط ہے یا نہیں ۔ جیساکہ بعض اجزا میں یہ ربط بہت ہے جیسے پانچواں پارہ ’’ والمحصنٰت ‘‘ اور گیارہواں پارہ کا ’’انما السبیل‘‘ سے ربط ، تو ظاہر اً یہی ہے کہ اس نے صحابہ کرام کی ہی اس مسئلہ میں اتباع کی ہے۔ کیونکہ ان لوگوں کو جب کوئی آثار صحابہ میں سے چیز مل جاتی تو کسی اور چیز کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور اس تقسیم کی دلیل حدیث اوس میں گزر گئی ہے جیساکہ ترتیب سورکی دلیل عبداللہ بن عمرو کی روایت ہے ۔ ہاں البتہ یہ مسئلہ باقی ہے کہ ان پاروں کی ابتدا کی حد بندی کس نے کی ہے ؟.