کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 126
امالہ کے ساتھ ہیں۔[1] اور فتح اہل حجاز کی لغت ہے یعنی قریش اور ان کے قرب و جوار جب کہ امالۃ قیس ، تمیم ، اسداور اہل نجد میں سے اکثر کی قراءت ہے۔[2] پس یہ دونوں عرب کی فصیح لغات میں سے ہیں اور دونوں قراءتیں تواتر کے ساتھ ثابت ہیں کسی ایک کو دوسری پر ترجیح نہیں۔ ابن ابی شیبہ نے ابراہیم نخعی سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا: وہ (صحابہ ) الف اور یاکی قراءت کو برابر سمجھتے تھے یعنی فتح اور امالہ۔[3] ان میں سے بعض فتح کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کو اصل بناتے ہیں اس فرمان نبوی سے استدلال کرتے ہوئے ( قرآن فتح کے ساتھ نازل ہو اہے)۔ [4] حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ حدیث مبارکہ میں ’تفخیم‘ سے مراد (الصدفین) ( عذراً) اونذراً) جیسے کلمات ہیں یعنی قاری کو چاہیے کہ وہ قرآن مجید کے وقار اور جلال و عظمت کا خیال رکھے اور اپنی آواز کو عورتوں کے ترنم کے مشابہ نہ ہونے دے ۔ اس کے لیے لائق نہیں کہ آوازمیں بہت زیادہ باریکی پیدا کرے اور نہ ہی یہ کہ اس کو یوں پڑھے کہ ان فاسق شیطانی گلو کاروں کی طرح ہو جو بے حیائی ، آہ آہ اور نازو ادا کے عادی ہوتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی کلام کے شانِ شایان نہیں۔ البتہ بعض علماء[5] سے جو قراءت حمزہ میں کثرت امالات کی کراہت ہے تو اس کی دو وجہیں ہیں:
[1] بعض ’’الف‘‘ ’’یاء‘‘ کی صورت لکھے جاتے ہیں جیسے ’’ تغشھا‘‘ اور ’’ مجرھا‘‘ ’’ الاولیٰ‘‘ ’’یغشی‘‘ ’’الانثی‘‘ اور بعض الف کی صورت میں جیسے ’’جاء‘‘ ’’شاء‘‘ ’’الناس‘‘ ’’النار‘‘ اور بعض جگہ اس کو حذف بھی کر دیا جاتا ہے جیسے ’’الکفرین‘‘. [2] ابراز المعانی ابو شامہ ص:152 ’’النشر 2/30‘‘شرح المفصل ابن یعیش 9/54 ’’جمع الجوامع السیوطی 2/204 اتقان فی علوم القرآن سیوطی 1/313. [3] النشر جزری:2/31. [4] تقدم. [5] وہ امام احمد رحمہ اللہ ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اصول القراء میں اس باب کو ہم نے منفرد ذکر کیا ہے۔ ان سے ابن قدامہ رحمہ اللہ نے المغنی (2/165 طبع ترکی) میں اور ابن قیم رحمہ اللہ نے اغاثۃ اللھفان ص:181 میں ذکر کیا ہے.