کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 120
جارو مجرور فعل (تتفکرون ) کے متعلق ہیں جن کے بغیر معنی صحیح نہ ہو گا۔ لیکن جب اختتام آیت پہ وقف کرنے سے معنی خراب ہوتا ہو تو وہاں وقف کرنا ،وقف قبیح ہوگاجیسے ﴿فَوَیْلُ لِّلْمُصَلِّیْنَ ۔ اَلَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ﴾ (الماعون: 4 تا 5) پس للمصلین پہ وقف معنی کو فاسد کر دیتا ہے کیونکہ نمازیوں کے لیے مطلق طور پہ وعید کا ذکر ہو گا تو یہ ایسے ہی ہے جیسے آیت عذاب کو آیت رحمت کے ساتھ ملا کے ختم کر دیا جائے جبکہ ثابت ہے کہ اسلاف وقف و اختتام میں اس چیز کا بہت خیال رکھتے تھے۔[1] میمون بن مہران سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں ان لوگوں کی قراءت سے کانپ اُٹھتا ہوں جو اس سے کم آیات نہ پڑھنے کو اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں جبکہ وہ قراءتو قصص کی تلاوت کرتے وہ قصہ مختصر ہو یا طویل جبکہ آج ان کی قراءت کا یہ حال ہے کہ وہ ﴿وَاِذَا قَیْلَ لَہُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ۔ قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ﴾ (البقرۃ: 11 تا 12) کی تلاوت کرتے ہیں اور پھر دوسری رکعت میں اُٹھ کر ﴿اَلَااِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ﴾[2] سے پڑھتے ہیں۔قراء سے ان کی مراد صحابہ کرام ہیں کیونکہ میمون بن مہران کبار تابعین میں سے ہیں۔[3] عامر شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب تو ’’کُلُّ مَنْ عَلَیہََا فَانٍ‘‘ کی قراءت کرے تو مت رک یہاں تک کہ ﴿وَیَبْقیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاکْرَامْ﴾ (الرحمن: 26 تا 27) پڑھ لے۔[4] قتادہ[5] سے اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَنْزَلَ عَلیٰ عَبْدِہِ
[1] القطع سے مراد یہاں قراء ت سے پھرنا ہے ، نماز میں ہو تو رکوع کے ذریعے اور خارج نماز ہو تو کسی اور طرح بخلاف وقف ، وقف کا معنی ایک وقت کے لیے کسی کلمہ پر سانس کو توڑنا ہے اس ارادہ سے کہ قرا ء ت کو پھر سے شروع کر ے گا. [2] ایضاً دیکھیے المکتفیٰ دانی ص:135 اور نحاس کی القطع والائتناف ص:91. [3] میمون بن مہران ابو ایوب جزری الرقی ، ابو ہریرہ ، عائشہ ابن عباس اور ابن عمررضی اللہ عنہم و غیر ھم سے روایت کرتے ہیں۔ 40 ھ میں پیدا ہوئے اور 117ھ میں فوت ہوئے۔ ( سیر اعلام النبلاء 5/71 ). [4] یہ روایت النشر میں ہے۔ 1/225. [5] قتادہ بن دعامہ دوسی ابو خطاب کبار تابعین میں سے ہیں۔ (مشاہیر علماء الامصار: ص:96).