کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 119
یہی مفہوم ہے نہ کہ وہ جو بعض تو ہم پرستوں نے سمجھ لیا کہ صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کو قرآنی کلمات میں تبدیلی کی اجازت تھی۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے: ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے متعلق پوچھا گیا تو وہ اس کی توضیح میں حرف بہ حرف بیان کرنے لگیں اور فرمایا آپ قراءت رک رک کر فرماتے تھے۔ آپ پڑھتے ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ پھر ٹھہر جاتے، ﴿اَلرَّحْمَانِ الرَّحِیْم﴾ پھر وقف کرتے، ﴿مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ اس کو ترمذی اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے ۔ ابوداؤد کے الفاظ میں ہے: وہ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، اَلرَّحْمَانِ الرَّحِیْم، مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ،﴾ ہر آیت پہ ٹھہر ٹھہر کے تھی۔[1] پس یہ حدیث مبارکہ اس بات پہ دلالت کرتی ہے کہ آیات کے اختتام پہ وقف کرنا چاہیے تو یقینا اس سے عدالآی اور فواصل کی معرفت کے اہتمام کا فائدہ بھی نظر آتا ہے جب کہ آپ سے ثابت ہے کہ آپ ان (صحابہ ) کو یہ بھی ایسے ہی سکھاتے تھے جیسے ان کو قرآن سکھاتے تھے ۔[2] تاہم جب آیت کریمہ کا مابعد سے بہت گہرا تعلق ہو تو قاری کو اختیار ہے کہ وہ آیت کے اختتام پہ وقف کرے اور پھر اس کو ما بعد سے ملادے اس کی مثال ﴿لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ ۔فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ ...﴾ (البقرۃ: 219، 220) پس جب (تتفکرون) پہ وقف کرے تو ما بعد سے ابتداکی بجائے وصل کرے کیونکہ
[1] الترمذی:5/183 اور ابو داؤد:2/181. [2] اس کی دلیل ابن جریر کی مقدمہ تفسیر میں روایت ہے ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم نے سورہ فرقان میں اختلاف کیا، ہم نے کہا 35 آیات ہیں یا 36 ،پس ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ہم نے علی رضی اللہ عنہ کو آپ سے سر گوشی کرتے پایا،ہم نے کہا ہمارا قراء ت میں اختلاف ہو گیا ہے تو آپ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم سے پہلے لوگ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے علی رضی اللہ عنہ سے کوئی بات کی تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے ہیں کہ جس طرح تمہیں سکھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔‘‘.