کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 115
نماز پڑھنے والا جب فاتحہ میں غلطی کرے گا تو ارکان نماز میں خلل واقع ہونے کی بنا پر اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ فقہا ء کی اس مسئلہ میں دقیق تفصیل ہے ۔[1] (1)… لحن جب بہت زیادہ ہو اور معنوی خرابی کا باعث ہو تو بالاتفاق یہ نماز کو فاسد کر دینے والی چیز ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ جب غلطی ایسی ہو جس سے پڑھی جانے والی قراءت کوئی اور کلام سمجھی جا رہی ہو تو نماز فاسد کر ے گی چاہے معنوی تبدیلی واقع نہ ہو۔ ہمارا خیال ہے جب غلطی معنی میں تبدیلی واقع کرے تو وہ فاسد نماز ہے جیسے ’’ھمالۃ الھتب ‘‘[2] (2)… قراءت قرآنی کی موافقت: جب غلطی قراءت قرآنیہ میں سے کسی کے موافق ہو جائے تو نماز فاسد نہیں ہوتی چاہے قاری اس قراءت کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو جیسے (صراط) اور (الصراط) کو سین کے ساتھ یا اشمام کرتے ہوئے زا کے ساتھ پڑھنا۔ [3]
[1] فقہا ئے احناف میں سے اس مسئلہ میں سیر بحث صاحب ( المحیط البرھانی) نے ابواب الصلاۃ میں کی ہے۔ انہوں نے مستقل باب قائم کیا ہے ( قاری کی لغزش ) میرے مکتبہ میں اس کے دو خطی نسخے موجو د ہیں پھر قاضی خان نے بھی اپنے فتاویٰ میں نماز کے مسائل میں ذکر کیا ہے (1/116 ) انہوں نے کافی مثالیں بھی دیں ہیں. [2] حنفیہ میں سے صاحب غنیہ نے اس پر نص بیان کی ہے (ص 461 جیساکہ ان سے تھانوی نے اعلاء السنن میں بھی نقل کیا ہے ) اس سے بھی وہی سمجھ آتا ہے جو ہم نے فقہا کے کلام کی روشنی میں راجح قرار دیا ہے کہ أمّی(ان پڑھ) کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے ؟ ہمیں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان حضرات نے کیسے معنی کی تبدیلی سے نماز کے فاسد ہونے کی شرط رکھی ہے جب کہ کلمہ یا حرف کی تبدیلی سے یہ خلل واضح پیدا ہو جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو اسے تحریف قرآن سمجھا جائے گا۔ یہی اختیار متقدمین فقہائے احناف کا ہے. [3] شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کی مثالوں کے ساتھ وضاحت کی ہے بلکہ جو مثالیں ہم نے ذکر کی ہیں ان سے زیادہ مثالیں دی ہیں اور فرماتے ہیں ’’الحمد للّٰه رب ‘‘ رب کو تین حرکات کے ساتھ اور ایسے ہی (الحمد ) کوضمہّ اور کسرہ کے ساتھ ( علیھم) کو ھاء کے ضمہ یا میم کے ضمہ سے پڑھنا لحن نہ ہو گا۔ (فتاویٰ مصریہ 172/2 تا 182 ) ابو مجاہد کہتے ہیں ( رب) کو مضموم یا مفتوح اور (الحمد) کو مضموم باللام نہیں پڑھا جا سکتا۔ البتہ مکسور بالدال حسن بصری کی قراء ت ہے جو کہ لام جر کی اتباع میں ہے اور یہ قرا ت اربعہ عشر میں ہے۔ دیکھیے: (اتحاف فضلا البشر) الدمیاطی تحقیق دکتور شعبان محمد اسماعیل۔ جو قراء تیں بلا سند کتب تفسیر اور کتب لغۃ میں ہیں جیسے ابن جنی وغیرہ تو ان کا اعتبار نہیں ہے.