کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 110
ہونے کے باوجود ۔ کیونکہ وہ فصیح ترین عرب تھے ۔اس حدیث مبارکہ میں اس کی مذمت ہے اور یہ ضلال (گمراہی ) کی قسموں میں سے ہے جس کے کرنے والے کی اصلاح کی ضرورت ہے ۔ کبھی کبھار یہ غلطی کلمات میں تبدیلی کا سبب بن جاتی ہے تو اس وقت وہ بہت زیادہ مذمت بلکہ قدرت ہونے کے باوجود نہ بچنے کی شکل میں گناہ کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔ ابن جریر نے ابو العالیہ [1] سے روایت کیا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے قسم ہے! اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا جائے اور اس کی تلاوت ایسے کی جائے جیسے تلاوت کرنے کا حق ہے اور اس کے کلمات کو تبدیل نہ کیا جائے۔[2] قراءت میں لحن ( غلطی )یا تو اعراب میں ہو گی یا پھر نص قرآنی میں تبدیلی کی غلطی ہوتی ہے یعنی اس کو دوسرے کلمہ یا حرف کو دوسرے حرف سے تبدیل کر دیاجاتا ہے تو اس کو تحریف کہتے ہیں ۔ چاہے معنی صحیح ہی کیوں نہ ہو کیونکہ پڑھنے والے نے جس حرف کو ادا کیا ہے وہ قرآن مجید میں ہے ہی نہیں ،یا پھر غلطی لہجہ میں ہوتی ہے اور یہی اکثر وبیشتر واقع ہوتی ہے ۔ اعراب میں غلطی کی مثال محمد بن قاسم انباری کی روایت[3] ہے کہ زیادنے ابو اسود کی طرف کسی کو بھیجا اور کہا:اے ابو اسود! عربوں کی زبانوں پر اب یہ حمیری زبان بہت عام ہو رہی ہے
[1] ابو العالیہ الریاحی ان کا نام رفیع بن مہران ہے۔ ( التقریب 1/252 ). [2] تفسیر ابن جریر تحقیق محمود شاکر:2/567. [3] یہ واقعہ تفصیلا (ایضاح الوقف والا بتداء فی کتاب اللّٰه عزوجل 1/39 میں دیکھیے اس کو دانی نے محمد بن علی بغدادی عن الانباری روایت کیا ہے (المحکم ص:3 ) یہاں کچھ اور روایات بھی انباری نے ذکر کی ہیں جن کی اسناد میں علت ہے ۔ روایت کرنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ سب سے قبل علم نحو اور مصحف کے نقاط ابو الاسود دولی نے وضع کیے ہیں، جس کا نام ظالم بن عمرو ہے لیکن بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے عمر بن خطاب کے حکم سے ایسا کیا اور بعض کے ہاں علی بن ابی طالب کے حکم سے، اور بعض روایات کے مطابق زیاد سے انہوں نے اجازت لی تھی ۔ البتہ اس روایت میں ہے کہ زیاد امیر کوفہ جو کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہے ، انہوں نے اس بات کا مطالبہ کیا تھا۔ واللہ علم.