کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 108
ہی نہیں، یہ امر ہے اور امر وجوب کے لیے ہوتا ہے جب تک کوئی قرینہ نہ پایا جائے جو کہ یہاں نہیں ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ اُولٰٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ﴾(البقرۃ: 121) ’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی وہ اس کی کماحقہ تلاوت کرتے ہیں وہی اس پر ایمان رکھنے والے ہیں۔‘‘ ابن جریر طبری نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی سند سے روایت کیا ہے ، انہوں نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اس کی تلاوت کا حق یہ ہے کہ اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا جائے اور اس کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اور اس کے کلمات میں تحریف و تبدل نہ کیا جائے۔[1] اسی طرح امام بخاری نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کیا ہے ان سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کیسی تھی ؟ تو انہوں نے فرمایا: وہ مدّاً (کھینچ کے) پڑھتے تھے ۔ بسم اللہ کو کھینچ کر پڑھتے اسی طرح الرحمن اور الرحیم کو بھی ۔ [2] عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ ایک شخص کو پڑھا رہے تھے تو اس نے ’’إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسٰکِیْنْ…… ‘‘ کو بغیر مد کے پڑھا ۔[3] تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح نہیں پڑھایا ، اس نے پوچھا اے ابوعبدالرحمان!
[1] تفسیر ابن جریر:1/411. [2] بعض لوگوں نے جلدی کرتے ہوئے قراء کے متعلق یہ خیال کیا ہے کہ وہ باوجود صحیح حدیث کے ثابت ہونے کے یہاں مد نہیں کرتے جب کہ یہ زعم باطل ہے۔ قراء حضرات نے بالا جماع یہاں مد کو ثابت کیا ہے تاہم لفظ (اللہ ) اور (الرحمان ) میں مد طبعی ہے جب کہ (الرحیم ) میں حالت اصل وصل اور حالت وقف بوجہ مد عارضی تینوں وجوہ ہیں اور اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔ (دیکھیے فضائل القرآن:6/112 ). [3] یعنی بغیر مد کے اور مقصود مد متصل ہے۔ (التوبہ: 60).