کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 106
تو ہم کہیں گے: سلف کے ہاں قاعدہ معروف ہے اور اس کو ہر زمانہ کے بہت سے قراء نے اختیار کیا ہے کہ قرا ت قرآن کوتلقی بالمشافہہ حاصل ہے اور یہ متواتر اسناد سے ہی ثابت ہے بلکہ اس کو روایت کے دوسرے طریقوں سے حاصل ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ لا زمی ہے اس کو بالمشافہہ سیکھا جائے لہٰذا یہی صحیح قول ہے کہ اس میں نہ اجازہ ہے اور نہ مناولہ یا وجادہ ۔ناظم کہتے ہیں: اس کو کتابوں سے حاصل کرنا جائز نہیں جیساکہ علماء نے صراحت کی ہے بلکہ آپ پہ لازم ہے کہ اس کی معرفت اس سے حاصل کریں جو اس کی کیفیت کو تمھارے سامنے ادا کر کے دکھائے۔[1] سلف تو یہی کہتے ہیں کہ قرات قرآن سنت متبعہ ہے۔ بعد والے پہلوں سے حاصل کریں گے ۔ ابو بکر بن مجاہد عتیبی بغدادی (ت 324) ،اس بات کو اپنی کتاب (السبعۃ)میں زید بن ثابت ، محمد بن منکدر ، عروۃ بن زبیر اور شعبی سے روایت کرتے ہیں ۔[2] اور اسی طرح عمر بن خطاب [3] اور عمر بن عبدالعزیز سے بھی روایت ہے[4] زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت کو ابوبکر مجاہد نے ابوزناد [5] عن ابیہ عن خارجۃ بن زید عن ثابت عن ابیہ یوں بیان کیا ہے۔ قرا ت سنت مبتعہ ہے اس کو جیسے حاصل کرو ،ویسے پڑھو۔ شعیب بن ابی حمزہ عن محمد بن منکدر[6] سے روایت ہے انہوں نے فرمایا قرآن کی قراءت سنت ہے اس کو پچھلے پہلوں سے حاصل کر یں گے۔
[1] ہمارے شیخ محمد امین بن أید الجکنی شنقیطی کی املا. [2] السبعۃ: ص 49 تا 52. [3] النشر: ابن جزری 1/17. [4] المرشد الوجیز ابو شامہ ،ص:170. [5] عبداللہ بن ذکوان قرشی المعروف ابو الزماد مولی عمر بن خطاب (التقریب:1/143). [6] محمد بن المنکدر بن عبداللہ قرشی ابو عبداللہ سردارانِ قریش اور اہل مدینہ کے قراء اور عبادت گزاروں میں سے ہیں۔ 130 ہجری میں فوت ہوئے۔ (مشاہیر علماء االامصار ،ص:65 ).