کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 105
خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کاتبینِ قرآن کی جماعت سے کہا جب تم لوگوں کا اور زید بن ثابت کا کسی کلمہ کے عربی یا غیر عربی ہونے میں اختلاف ہو جائے تو اسے قریش کی زبان کے مطابق لکھ دینا کیونکہ قرآن ان کی زبان کے مطابق نازل ہوا ہے۔[1] ابن انباری روایت کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو سنا وہ یوں پڑھ رہا تھا (عتی حین) تو انہوں نے فرمایا: تجھے اس طرح کس نے پڑھایا ہے؟ اس نے کہا عبداللہ بن مسعود نے، تو انھوں نے ان کی طرف لکھ بھیجا بے شک قرآن لغتِ قریش میں نازل ہوا ہے لہذا لوگوں کو اسی لغت کے مطابق پڑھاؤ ان کو لغتِ ھذیل مت پڑھاؤ۔ [2] خلاصہ یہ ہو اکہ جب صحابہ کرام کو باوجود فصیح ترین عرب ہونے کے اجازت نہ تھی کہ وہ اپنی اپنی زبان کی آسانی کے مطابق قرآن پڑھ لیں تودوسروں کو بالأولیٰ اس کی اجازت نہیں ہے بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس کو جبکہ آپ نے ضاد کے نطق کو سب سے فصیح ادا کیا اس بات کی اجازت نہ تھی بلکہ آپ کو قرآن کی تعلیم قوی امین (جبریل) سے مشافہتاً اور عرضًا وسماعاً دی گئی اور اس کو حاصل کرنے کا حکم دیا گیا بلکہ اس کو حاصل کرتے وقت غور سے سننے کا حکم دیا گیا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ [3] بس کیا اب بھی یہ کہا جائے گا کہ اس زمانہ میں عربی دان کواپنی لغت کے مطابق قرا ت کی اجازت ہے، وہ علم قرات اور تلقی کیفیت کا محتاج نہیں جس کو وہ ماہر قراء سے مشافہتاًسیکھے؟ یہ کیسے ممکن ہے جبکہ زبانیں ٹیڑھی ہو چکی ہیں، عجمیت غالب آچکی ہے اور اغلاط عام ہوگئی ہیں؟ [4]… اگر کوئی یہ کہے کہ کیاقرآن کی قرات کو تجوید سے پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل سند کے ساتھ ثابت ہے اور یہ اسناد کہا ں ہیں جن کا قراء دعوی کرتے ہیں ؟
[1] المصاحف لابن أبن ابی داؤد: ص20. [2] ایضاح الوقف والابتداء:1/13. [3] تقدم.