کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 104
کے علاوہ میں پڑھنا جائز نہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے حاصل کی گئی ہے اور جس کو مقرئین (قراء حضرات) نے مشافہتاً سیکھاہے، بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے لیے پڑھانے والوں کا تعین فرمایا اور یہ تعین صرف انہی افراد تک محدود نہیں بلکہ دوسری احادیث میں آپ نے اوروں کو بھی شمار فرمایا ہے۔ (3)… اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قرآن مجید لسانِ عرب میں نازل ہوا ہے تو ایک عربی شخص کو اس کے نطق کے لیے قواعد سیکھنے کی کیا ضرورت ہے وہ تو اس کو بلا تکلف پڑھ سکتا ہے کیونکہ وہ اسی کی لغت میں ہے تو ہم کہیں گے: صحابہ کرام کو ان کی لغت پہ اکتفا نہیں کرنے دیا گیا کہ وہ اپنی زبان کی آسانی کے مطابق اسے پڑھ لیں بلکہ انہیں حکم دیا گیا کہ وہ اس کی قراءت کی کیفیت کو سیکھیں حالانکہ وہ فصیح عرب ہیں غلطی سے انہیں واسطہ ہی نہیں اس سب کچھ کے باوجود انہیں اس حکم کا مکلف ٹھہرایا گیا کہ ’’ویسے پڑھو جیسے تمہیں سکھلایا گیا ہے۔ ‘‘ اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ قرآن ان کے مخصوص لغات و لہجات کے مطابق نازل ہوا نہ کہ ہر زبان کے مطابق، ان کی زبانوں میں عمدہ بھی ہیں اور غیر عمدہ بھی لہٰذا ان پر شفقت کرتے ہوئے قرآن کو ہلکی زبانوں سے پاک رکھا گیا ہے۔ آپ اسمیں نہ کسکسہ تمیم پائیں گے اور نہ ہی کشکشہ ھوازن ، نہ قرانیہ عراق اور نہ ہی طمطانیہ حمیر[1] بلکہ اس کا اکثر حصہ قریش کی زبان میں نازل ہوا اور وہ فصیح عرب ہیں اور اس کا بہت سا حصہ غیر قریش کی لغت میں بھی ہے جیسے امالہ اور ہمزہ یہ دونوں قریش کی لغت سے نہیں کیونکہ قریش نہ امالہ کرتے ہیں اور نہ ہی ہمزہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اسی لیے امام شافعی قریشی ہونے کی وجہ سے (القران) کو بغیرہمزہ کے پڑھتے تھے۔
[1] ابو الفضل رازی کہتے ہیں: اہل حیرہ کی زبان میں کثرت اما لہ کو کہتے ہیں اور (القرانیہ) قاف مع تخفیف اس ناقابل فہم کلام کو کہتے ہیں جو عجمی ہو اور ( الکسکسۃ) کاف کو سین سے بدلنے کا نام ہے جبکہ (الکشکشۃ) کاف کو شین سے بدلنے کا نام ہے اور (الطمطانیۃ) ابہام کو کہتے ہیں (اللوامح یا شرح حدیث أحرف سبعۃ ق44) بتصرف.