کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 103
قراءت کے متعلق کوئی ایسا حکم نہیں؟ ہم اسے یہ جواب دیں گے: ہم واضح کر چکے ہیں کہ قرا ت قرآن کو نماز کہا گیا ہے پس وہ (قرات) خود بخود ’’صَلُوّا کَمَارَأیْتُمُوْنِی أُصَلِّی‘‘ کے خطاب میں داخل ہے۔ پھر یہ بھی کہ ہر عبادت کا معاملہ توقیفی ہے جیسا کہ نماز کا مسئلہ ہے وگرنہ آپ کی طرح روزہ رکھنے میں ہمارے پاس کون سی دلیل ہے اور اہل علم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو روزے کے توقیفی ہونے کا قائل نہ ہو اس کے ساتھ ساتھ ایسی نصوص موجود ہیں جن میں ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کی طرح پڑھنے کا حکم ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہمیں علی بن ابی طالب نے فرمایا: بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دے رہے ہیں کہ قرآن کو ایسے پڑھو جیسے تمہیں سکھایا گیا ہے۔ [1] عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ قرآن مجید کو چار اشخاص سے سیکھو، عبداللہ بن مسعود ، سالم ، معاذ اور اَبی بن کعب ۔‘‘[2] ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’ جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ قرآن کو اس کی اصلی حالت پہ پڑھے تو اسے چاہیے کہ وہ ابن اَم عبد کی قراءت پہ پڑھے‘‘ یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ۔[3] زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ پسند کرتے ہیں کہ قرآن کو اسی طرح پڑھا جائے جیسا وہ نازل ہوا ہے۔‘‘[4] پس یہ نصوص اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ قراءت توقیفی ہیں کسی کے لیے اس صورت
[1] تفسیر ابن جریر (مقدمہ 23،1) اللوامح ابو الفضل رازی (مخطوط ص3). [2] صحیح بخاری: فضائل القرآن ،باب8 (1/102). [3] تقدم. [4] الجامع الصغیر للسیوطی ، انہوں نے ضعیف کی رمز لگائی ہے اور اس کو (الابانۃ) میں ابونصر سجزی کی طرف منسوب کیا ہے۔ (فیض القدیر 2/297).