کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 99
اور اس قانون کی آبرو رکھ لی گئی۔ قرآن عزیز میں ارشاد ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ﴾(الحج:77) ”اے ایمان والو !رکوع اور سجود کرو اور اللہ کی عبادت کرو۔ “ فقہائے حنفیہ فرماتے ہیں کہ رکوع کے معنی جھکنا ہے، سجود کے معنی زمین پر سر رکھنا۔ اگر کوئی شخص ذرا جھک جائے یا زمین پر سر رکھ لے تو نماز ہو جائے گی، گو رکوع اور سجود میں اطمینان اور اعتدال حاصل نہ ہو۔ شوافع اطمینان اور اعتدال کو فرض سمجھتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ جس طرح نماز میں رکوع اور سجود ضروری ہے، ٹھیک اسی طرح شرعاً نماز میں طمانیت اور سکون بھی ضروری ہے۔ اگر ان ارکان میں اعتدال نہ ہو تو شوافع اور ائمہ حدیث کے نزدیک نماز نہیں ہو گی۔ احناف فرماتے ہیں: نماز ہو جائے گی، کیونکہ رکوع اور سجود کا لغوی معنی ثابت ہو گیا، اس لیے شوافع کا خیال غلط ہے، خاص کو کسی بیان اور خارجی تشریح کی ضرورت نہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز پڑھی، اس نے رکوع و سجود اطمینان سے نہیں کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین دفعہ فرمایا: ((فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ)) [1] (تم نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی) یعنی شرعاً تمھاری نماز کا کوئی وجود نہیں۔ اسی حدیث کی بنا پر اہل حدیث اور شوافع وغیرہم کا بھی یہی خیال ہے کہ اگر رکوع اور سجود میں اطمینان نہ ہو تو نماز نہیں ہو گی۔ احناف فرماتے ہیں:رکوع اور سجود کا معنی معلوم ہو جانے کے بعد ہم حدیث کی تشریح اور نماز کی نفی قبول نہیں کرتے۔ قرآن کی عظمت اسی اصل کی حمایت میں یہ عذر فرمایا گیا کہ اگر شوافع کے مسلک یا حدیث پر یقین کرتے ہوئے یہ مان لیا جائے کہ نماز میں اطمینان فرض ہے تو یہ قرآن پر زیادتی ہو گی،
[1] ۔ صحيح البخاري رقم الحديث(724)صحيح مسلم، رقم الحديث(397)