کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 98
((قال بعض الفقهاء :ومن العجب انكار لحوق النسب بالقيافة التي اعتبرها رسول الله صلي الله عليه وسلم وعمل بها الصحابة من بعده، وحكم بها عمر بن الخطاب رضي الله عنه والحاق النسب في مسالة من تزويج بأقصي المغرب امرأة باقصي المشرق، وبينهما مسافة سنين، ثم جاءت بعد العقد باكثر من ستة اشهر بولد))[1] ”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قیافے کو اثبات نسب میں معتبر سمجھا، لیکن بعض فقہا نے اس کا انکارکردیا اور اقصیٰ مغرب میں ایک آدمی اس عورت سے نکاح کرے جو اقصیٰ مشرق میں ہے، چھے ماہ کے بعد اس کے ہاں بچہ پیدا ہوتو یہ حضرات اس کے نسب کو صحیح سمجھتے ہیں! “ یہ قیاس کا عجیب کرشمہ ہے۔ مستندقرائن کا انکار کردیا گیا اور اوہام و ظنون کی بنا پر نسبت ثابت کردی اور بچہ ثابت النسب قرار پا گیا۔ یہ اوہام تو قابل اعتماد قرارپائے اور قیافے کی وجہ سے خبر واحد کے پورے ذخیرے پر عتاب فرمایا گیا کہ وہ ظنی ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اس غیر معتدل طریق فکر پر کیسے مطمئن ہوتے ؟ تیسری مثال: 3۔ علمائے اصول نے ایک قاعدہ بیان فرمایا((الخاص لا يحتمل البيان))[2]اس قانون کا مطلب یہ ہے کہ خاص کا مفہوم چونکہ واضح اور بین ہوتا ہے، اس لیے اسے بیرونی تشریح اور وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی قانون کی روشنی میں کئی مواقع میں شوافع پر حجت قائم کی اور یہ ظاہر فرمایا کہ ہمارا موقف صحیح ہے اور شافعی غلطی پر ہیں۔ بلکہ اگر کہیں صحیح حدیث بھی اس قانون سے ٹکراگئی تو حدیث کو نظر انداز کردیا گیا
[1] ۔ الطرق الحكمية في السيامة الشرعية لابن القيم (ص:14) [2] ۔ حسامي(ص:10) نور الانوار (ص:15) كشف الاسرار، التلويح علي التوضيح(ص:34)(مؤلف)