کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 97
من كان هذا القدر مبلغ علمه
فليستتر بالصمت والكتمان[1]
اگر فقہائے بریلی کا انداز فکر یہی رہا تو یہ قافلہ چند دن کا مہمان سمجھنا چاہیے۔ بریلی بدایوں، مارہر، لاہور، لائل پور، کوئی مقام اور کوئی نسبت ایسے لوگ کے لیے زندگی کی کفیل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان میں جہالت کا یہ دور اور علم فروشی کا یہ بازار ان شاء اللہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گا۔ آپ ہی سوچیں اس پون صدی کی کفر نوازی سے آخر اسلام کو کیا فائدہ پہنچا ؟ملک کہاں تک سر بلندہوا؟دین اور سیاست میں آپ کو کونسا مقام ملا؟آپ نے اہل توحید کو مشق ستم کے لیے انتخاب فرمایا اور وہ شرافت سے سر جھکا کر کھڑے ہو گئے اور آپ نے مظالم کی مشق ان مساکین پر فرمالی۔ ہوا کیا؟ ؎
ہمہ آہواں دشتی سر خود نہادہ برکف
بامید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد[2]
دوسری مثال:
2۔ ظن کو فیصلوں میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے، شریعت نے بیسیوں مقامات میں قرائن سے فیصلہ کیا کہ بچے کے الحاق میں اور لقیط کو ورثا کے ساتھ ملانے میں قیافے کو بہت بڑا دخل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید کے متعلق قیافے اور اس کے ماہرین کی رائے پربڑی مسرت کا اظہار فرمایا[3]بعض فقہانے اس قرینے کا اس لیے انکار فرمایا کہ اس میں ظن اور تخمین پر فیصلہ کیا گیا ہے۔ اپنی جگہ یقین کو بڑی اہمیت حاصل ہے، یقین کے بالمقابل ظن کوکوئی وقعت حاصل نہیں ﴿إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا﴾(یونس:36)
لیکن بعض فقہا نے ان قرائن کو نظر انداز کردیا، کیونکہ یہ ظنی ہیں، لیکن جب ظن کے قبول کا رجحان ذہن میں آیا تو کمال کردی۔ شکوک واوہام کو یقین کا مقام دے دیا۔ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
[1] ۔ جس کا مبلغ علم اسی قدر ہو، اسے خاموشی ہی زیباہے۔
[2] ۔ جنگل کے تمام ہرن اس امید پر کہ کسی دن شکار کا خواہشمند آئے گا، اپنا سر ہتھیلی پر رکھے پھرتے ہیں۔
[3] ۔ صحیح البخاری، رقم الحدیث (3555) صحیح مسلم، رقم الحدیث (1459)