کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 96
اور والہانہ تعلق جب توحید کی سرمستیوں سے ٹکرائے تو اس سے بچنا بڑی دانشمندی ہے، نہ تو نبوت کی بلندیوں کو گاؤخر کی حقارتوں سے ہم آہنگ ہونے دیا جائے، نہ نماز کے معراج اور اس مکالمہ الٰہیہ کے ذوق میں کسی دوسرے محبوب کو اشتراک کا موقع ہی دیا جائے۔ مسئلہ درست تھا۔ اگر تعبیر ناپسند تھی تو اسے بدل دیا جاتا۔ مولانا عبدالحی بڈھانوی کا ترجمہ وحی نہیں تھا، لیکن یہاں کوئی پرانا بغض تھا جسے نکالنا ضروری سمجھا گیا۔ سید احمد کاارشاد اور مولانا عبدالحی بڈہانوی کا ترجمہ دونوں حضرت شاہ اسماعیل شہید کے نام لگادیے گئےاور فتوؤں کی مشین تان دی گئی۔ کفر کے انبار بالا کوٹ کے میدان میں دریائے منہار کے کناروں پر انڈیل دیے گئے، جنھیں خون شہادت کے چند قطروں نے دریائے منہارکے سپرد کردیا اور شہداکی طہارت ان نجس اور غلیظ فتوؤں سے متاثر نہ ہو سکی۔ سراسیمگی اور شوریدہ سری کی کوئی حدہے کہ سید شہید کے ملفوظات اور مولانا عبدالحی کا ترجمہ دونوں بچارے شاہ اسماعیل کے نام پر الاٹ کردیے گئے اور درس وافتا کی مسندیں شہید حق کے کیڑے نکالنے میں مشغول ہوگئیں، جو ان کے درجات کی رفعت کا موجب ہوں گے۔ ان شاء اللہ! سید شہید رحمۃ اللہ علیہ نے نماز کی سر گوشیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی رفعیت اور گاؤخر کی حقارت انگیزیوں میں اگر امتیاز فرما کر نماز کی روحانی کیفیتوں کو شرک کی غلاظتوں سے پاک و صاف رکھنے کی تلقین فرمائی تو وہ کافر ہوئے، اس لیے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت فرماتے ہیں، آپ کی فقہی موشگافیوں نے تحریم نماز میں مصحف کے تقدس کو شرمگاہ کی عریانی اور انسانی کمزوریوں کے جنسی شہوت سے قرآن عزیز کو شکست دے دی، یعنی قرآن سے پڑھنا نماز کے لیے ناقص ٹھہرا اور شرمگاہ کی زیارت آپ کے خشوع میں کوئی خلل نہ پیدا کر سکی۔ اناللہ۔۔۔ آپ کا ایمان سلامت رہا اور آپ بالکل تازے اہل سنت و جماعت ہوگئے اور شہدائے بالا کوٹ شہادت اور قربانی کے باوجود کافر ہی رہے۔