کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 95
الي فرج امرأة بشهوة، كان الاول تعليم وتعلم فيها، لاالثاني)) (الاشباه والنظائر، ص:434، مطبوعه هند) ”اگر نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھے تو نماز فاسد ہوگی، لیکن اگر عورت کی شرمگاہ جنسی جذبے کے ساتھ دیکھے تو نماز فاسد نہیں ہو گی، کیونکہ پہلی صورت درس و تدریس کی ہے۔ شرمگاہ دیکھنے سے یہ مطلب حاصل نہیں ہوتا۔ “ اب اس عقل پروری اور تفقہ نوازی کوکون سمجھے؟جہاں قرآن دیکھنے سے خشوع ٹوٹےاور عمل کثیر ہو اور شرم گاہ کی طرف جنسی جذبات کے ساتھ توجہ نماز پر کوئی اثر ہی نہ ڈالے۔ !! کچھ شک نہیں جب علماء بحث و مناظرہ کے موڈ میں آجائیں تو پھر بھیڑیا حلال کر سکتے ہیں، مرغی حرام فرما سکتے ہیں، مگر عقل اور میزان اعتدال تو موشگافیوں اور نکتہ نوازیوں کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ اس لیے محدثین نے قیاس کی حجیت کے باوجود اس دو عملی سے بچنے کے لیے پوری احتیاط سے کام لیا ہے۔ ہمارے حضرات احناف کی ایک قسم بریلی سے نمودار ہوئی ہے، ان کی عمر قربیاً ساٹھ ستر سال کے پس و پیش ہوگی۔ یہ حضرات اسلام کے مدنی ڈھانچے کے حصہ عقائد میں بڑی اہم اور دور رس ترمیمات چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کے مدنی عقائدبریلی، لاہور، لائل پور کے تابع بنوا لیے جائیں۔ ان حضرات کی نظر سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات حصہ دوم کی(جو صراط مستقیم کے نام سے مشہور ہے) اس بات پر پڑی کہ گاؤخر کے تصور سے نماز میں خشوع پر اتنا اثر نہیں پڑتا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تصور سے خشوع زیادہ مجروح ہوتا ہے۔ [1] عنوان یا تعبیر کچھ ہو، بات صحیح اور درست تھی کہ محبوب اور پسندیدہ چیز کے تصور سے طبیعت کے رجحان اورخشوع پر زیادہ اثر پڑے گا۔ گاؤخر جیسی معمولی اور حقیر چیز کے تصور سے نماز اور خشوع پر وہ اثر نہیں پڑے گا۔ بات پتے کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت
[1] ۔ صراط مستقيم (ص:118)اداراہ نشریات اسلام لاہور