کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 93
چند مثالیں:
آگے بڑھنے سے پہلے اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمالیجیے۔
پہلی مثال:
1۔ صحیح بخاری میں ہے:
((وكانَتْ عَائِشَةُ يِؤُمُّهَا عَبْدُهَا ذَكْوَانُ مِنَ المُصْحَفِ))[1] (عمدة القاري :2/756 فتح الباري 1/386طبع هند)
”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا غلام ذکوان قرآن سے دیکھ کر نماز پڑھاتا تھا۔ “
ابن سیرین، حسن بصری، حکم، عطا، قرآن سے نماز میں قراءتجائز سمجھتے تھے۔ [2]
حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پیچھے سامع کے ہاتھ میں قرآن ہوتا، وہ انھیں لقمہ دیتے۔ [3]امام مالک تراویح میں اسے جائز سمجھتے ہیں۔ [4]
حافظ عینی فرماتے ہیں:
((قلت القراءة من مصحف في الصلاة مفسدة عند أبي حنيفة لأنه عمل كثير وعند أبي يوسف ومحمد يجوز لأن النظر
[1] ۔ صحيح البخاري كتاب الجماعة والامامة باب امامة العبد والموليٰ (1/245)امام بخاری رحمۃ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مذکورہ بالا اثر معلق ذکر کیا ہے، لیکن اسے امام عبدالرزاق (المصنف :2/394)ابن ابی شیبہ(2123)بیہقی(2/253)امام ابن ابی داؤدص:766)اور حافظ ابن حجر التعليق2/291)نے موصولاً بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ ((وهو اثر صحيح))(تخليق التعليق 2/291)
[2] ۔ امام ابن سیرین، حسن بصری، حکم اور عطاء رحمہم اللہ سے یہ آثار صحیح و حسن اسانید کے ساتھ ثابت ہیں۔ دیکھیں: ((كتاب المصاحف لابن ابي شيبة 2/123)
[3] ۔ صحيح مصنف ابن ابي شيبة (2/123)
[4] ۔ صحيح كتاب المصاحف لابن ابي داؤد (ص:721)امام مالک رحمۃ اللہ علیہ تراویح میں بوقت ضرورت اسے جائز سمجھتے ہیں۔