کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 92
مستحق ہیں اور یہی عقلمند کہلانے کے حق دار۔ “ اس میں عقلمند اور معاملہ فہم لوگوں کی تعریف فرمائی گئی ہے۔ ملتے جلتے مسائل میں توازن قیاس صحیح کا نتیجہ اور عقل کا واجبی تقاضا ہے۔ ﴿اللَّـهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ﴾(الشوريٰ:17) ”اللہ نے کتاب کو حق کے ساتھ اتارا اور اس کے ساتھ میزان کو بھی اُتارا۔ “ جس میزان کا تعلق کتاب کے ساتھ ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ اتری ہے، یہ ترازو وہ نہیں جو مادی اور جسمانی چیزوں میں توازن کے لیے بنائی گئی ہے، اس سے مراد وہی میزان ہے جو کتاب کے فہم اور ادلہ شرعیہ میں جس سے بصیرت ہوتی ہے، جس سے مختلف نظائر کے حکم میں توازن ہوتا ہے، اس کا فقہی اور اصطلاحی نام قیاس سمجھ لینا چاہیے، لیکن حقیقت میں وہ میزان ہے۔ اس لیے نہ قیاس کی ضرورت سےانکار کیا جا سکتا ہے نہ اپنے مقام پر اس کی حجیت اور افادیت کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ ائمہ حدیث ظواہر حدیث کے ساتھ پوری عقیدت، الفاظ اور ان کے لغوی معانی کے ساتھ پورے اعتنا کے باوجود قیاس کو شرعی حجت سمجھتے ہیں اور ان قیاسی ادلہ سے پوری طرح استفادے کے قائل ہیں۔ ان اصول کے احتوااور ممکن عموم اور ہمہ گیری کے معترف ہیں، لیکن نصوص شرعیہ کو ان اصول پر قربان نہیں کرتے۔ جس کی بعض مثالیں ان گزارشات میں مذکورہو رہی ہیں۔ عام فقہا اور خصوصاً فقہائے حنفیہ سے اس معاملے میں کچھ مسامحات ہوئی ہیں۔ رحمہم اللہ۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اصل بے چینی یہی ہے۔ بعض جگہ اصول نصوص سے ٹکرا گئے ہیں اور بعض جگہ اصول کی جامعیت اور اس کے طرد و عکس میں خلل واقع ہوا ہے۔ جہاں اصول کی جامعیت نے دل کی گہرائیوں میں جگہ لی اور نظائر کو اس پیمانے سے ناپنا شروع کیا، دیکھتے ہی دیکھتے پیمانہ ریزہ ریزہ ہو گیا، نظائر کا حکم باہم ٹکرا گیا اور اصول پاش پاش ہو گیا۔