کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 91
عقل اور نظائر کی تلاش چنداں ضروری نہ تھی، نہ عقل کی موافقت کی شرط ہی، اس لیے اپنی طرف سے نہ کسی اضافے کی ضرورت ہے نہ اس خطرے کو خریدنے میں کوئی فائدہ ہے۔
لیکن معلوم ہے کہ نصوص کا ذخیرہ محدود ہے۔ سنن ثابتہ چند ہزار کے پس و پیش ہوں گی اور قرآن عزیز کی ایک سوچودہ سورتوں میں آیات احکام کی تعداد معمولی ہے، لیکن حوادث کا سلسلہ غیر محدود ہے۔ جب تک دنیا فنا کی حدود تک نہ پہنچ جائے، واقعات اور حوادث ہوتے رہیں گے، ان غیر محدود واقعات کے متعلق ان محدود نصوص میں صریح احکام کیسے مل سکتے تھے؟اس لیے ظاہریت کی راہ بالآخر تکلفات کی راہ بن گئی اور عملی زندگی میں زیادہ دور تک نہ جا سکی، اور ملتے جلتے نظائر سے حکم میں فرق اور تفاوت معقول اور پسندیدہ راہ نہ شمار کی جا سکی، اس لیے اگر ظاہری مکتب فکر ایک لحاظ سے بے خطر تھا تو دوسرے نقطہ نظر سے بے کار، بلکہ بسا اوقات مضحکہ خیز بھی ہو گیا۔
قیاس اور تفقہ کی راہ:
عملی زندگی میں آگے بڑھنے اور اسے آگے بڑھانے کے لیے اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ نظائر اور ان کے احکام میں آہنگی پیدا کی جائے۔ شارع حکیم کے احکام کے وجوہ اور اسباب پر غور کیا جائے۔ ان مصالح کا بغور مطالعہ کیا جائے جن کی بنا پر شارع حکیم نے یہ احکام نافذ فرمائے۔ قرآن عزیز نے جب قدم قدم پر عقل و فہم کو مخاطب فرمایا ہے، توحید و نبوت اور معاد کے دلائل کے تذکرے میں عقل، لب اور نہی کے استعمال کی تلقین کی گئی ہے تو اسے معطل کیوں چھوڑاجائے؟
﴿ فَبَشِّرْ عِبَادِ 0 الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّـهُ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾
”وہ لوگ بشارت کے مستحق ہیں جو گفتگو سن کراس کے حسن و قبح میں تمیزکرتے ہیں، اچھی باتوں کو قبول کرتے ہیں۔ یہی لوگ اللہ سے ہدایت کے