کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 90
یہ دو عملی اور تضاد حضرت شاہ صاحب جیسے دور اندیش، معاملہ فہم فقیہ کے لیے کیسے اطمینان کا موجب ہو سکتا تھا؟ اس لیے ظاہر ہے کہ جمود پیشہ اور قاصر النظردنیا کی سیرابی اور اطمینان کےاسباب ودواعی ایک بالغ النظراور تجدیدی ذہن کے لیے کبھی اطمینان کا موجب نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تشنگی فطری اور قدرتی تھی۔ پھرجمود اور استعداد اجتہاد کا فقدان فقہائے احناف سے مخصوص نہ تھا، بلکہ تقلید کے مزاج کا تقاضا تھا کہ وسعت نظر اور وقت سے ممکن طور پر اجتناب کیا جائے۔ دلائل کی چھان پھٹک کے مشغلے سے بچ کر رجال اور ان کے اقوال کے سہارے پر زندہ رہنے کی کوشش کی جائے۔ جس طبیعت کا خمیر تجدید اور اجتہاد سے اٹھایا گیا ہو، جہاں حکم اور مصالح ذوق میں سمودیے گئے ہوں جس شخص نے اسرار شریعت اور دین کی حکمتوں میں رازی اور غزالی سے سبقت حاصل فرمائی ہو، ابن حزم اور عز بن عبدالسلام جیسے قول ائمہ پر تنقیدی تبصرے کیے ہوں، وہ توضیح اور کشف الاسرار پر کیسے مطمئن ہو سکتا تھا؟ اصول فقہ اور فقہ کے متعارض اور متصادم اصول اور جزئیات اسے کیسے مطمئن کر سکتے تھے؟ ظاہر پرستی کا مرض: حافظ ابن حزم اور امام داؤد ظاہری رحمہم اللہ نے قیاس کی ان بھول بھلیوں سے تنگ آکر اس کی حجیت سے انکار کردیا اور اسی تلاش میں نکلے کہ صرف کتاب وسنت پر کفایت کریں۔ یہ راستہ اس لحاظ سے بے خطر تھا کہ اس میں اپنی ذمے داریاں کم ہو جاتی ہیں۔ تاویلات اور قیاسات کی دوڑ دھوپ سے تھکنے یا ہار جانے کی نوبت نہیں آتی۔ جب دین میں مدارنقل پر ہے تو نقل پر انسان کو مطمئن ہوجانا چاہیے۔ اگر عقل بالفرض قاصر ہے تو حرج نہیں، اصل تو نقل ہی ہے۔ جب قرآن اور سنت میں ایک حکم مل گیا تو اب