کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 89
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کے دروس اور طریق افتا سے طالب علم اور اس وقت کے عوام مطمئن تھے، لیکن خود شاہ صاحب مطمئن نہ تھے۔ جس چشمے سے عام دنیا سیرابی حاصل کر رہی ہے۔ وہ چشمہ خود اپنی سوتوں میں تشنگی اور خشک سالی محسوس کر رہا تھا۔ جامد اور تقلید مزاج طبائع اپنی رسائی اور فہم کے لحاظ سے سمجھ رہے تھے فقہ حنفی اور اس کے مصالح کی ترجمانی کا حق صحیح طور پر ادا ہو رہا ہے۔ لیکن علم و تفقہ اور حکمت و مصالح کا یہ ترجمان دل ہی دل میں محسوس کررہا تھا کہ جب مذاہب مجتہدین اسلام کی ترجمانی ہے اور ائمہ فقہ کا ماخذ قرآن اور سنت ہے تو بعض تعبیرات کو کلیتاً کیوں ترک کیا جائے اور بعض پر قناعت کیوں کی جائے؟ اگر کسی موسم اور کسی ملک میں ایک تعبیر اسلامی مصالح اور دینی مقاصد کے چوکھٹےمیں پوری سازگار آسکے تو بالکل ممکن ہے کہ دوسری تعبیر دوسرے ماحول میں اس سے بھی زیادہ ساز گارآئے۔ نبوت جب ختم ہوچکی ہے تو صرف ترجمانی اور تعبیر کو کیوں نبوت کی طرح واجبی اور دوامی حیثیت دی جائے؟امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ دین کے خادم ہیں اور اسلام کے ترجمان دین ان کا دست نگر اور خادم نہیں کہ ان کے ارشادات اور احکام کے لیے ہر وقت چشم براہ رہے۔ فقہا کی عرصے سے یہ حالت تھی کہ وہ اس اسمی اور فقہی تقلید کو واجب اور فرض سمجھتے تھے۔ اس کی مزعومہ حیثیت کی بنا پر اکتفاء وتکفیر اور ایک دوسرے کی اقتدا سے حتمی طور پر روکا جاتا تھا۔ یہ سوتیلی ماں کا معاملہ ایک دانشمندکے لیے موجب حیرت تھا۔ شافعی حنفی ہوتو سزا پائے اور حنفی شافعی ہوتو خلعت ملے یہ کیسی حق پروری ہے؟ یہ عجیب و تیرہ تھا کہ علما کے اقوال وارشادات اور نصوص کتاب و سنت میں جب اختلاف اور تعارض ہوتو تاویل اور توڑپھوڑ نصوص کا حصہ تھا اور اپنی جگہ پر قائم رہنا ائمہ کی فقہیات کا حق تھا اور پھر دعویٰ یہ تھا کہ اصل مطاع نبوت ہے اجتہاد نہیں!