کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 88
روزانہ پڑھے اور اگر پڑھ نہ سکے تو چند اوراق کا ترجمہ سنے۔ عقائد میں سلف اہل سنت کی روش اختیار کرے۔ ائمہ سلف کی طرح موشگافیوں سے بچے اور خام کار معقولیوں کی شک آفرینیوں سے بچے۔ فرعی مسائل میں ان محدثین کا اتباع کرے جو حدیث اور فقہ دونوں سے پوری طرح واقف ہوں۔ فقہی مسائل کو ہمیشہ کتاب و سنت پر پیش کرے جو موافق ہواسے قبول کرے، ورنہ بالکلیہ نظر انداز کردے۔ اُمت کو اپنے اجتہادات کوکتاب و سنت پر پیش کرنے سے کبھی استغنا حاصل نہیں ہوا۔ ضدی قسم کے فقیہ حضرات کی، جنھوں نے بعض اہل علم کی تقلید کو دین کا سہارا بنا رکھا ہے اور کتاب و سنت سے اعراض ان کا شیوہ ہے، بات تک نہ سننا اور ان کی طرف نگاہ مت اٹھانا اور ان سے دور رہنے ہی میں خدا کا قرب تلاش کرنا۔ “ شاہ صاحب کے دانشمندانہ اور جرات آمیز اعلان سے تعجب ہوتا ہے۔ شاہ صاحب نے جس ماحول میں تربیت پائی تھی، فقہی جمود کا دور تھا، اس وقت کا بہت بڑا متدین اور روشن خیال بادشاہ، اسلام کی جو سب سے بڑی خدمت کر سکا، وہ فتاوی عالمگیری کی تالیف تھی، جسے فتاوی ہندیہ کہا جاتا ہے۔ عالمگیر نے اسلامی قانون کی بہتر تعبیر کے لیے وقت کے بہترین علما کو جمع کیا، ان مقدس بزرگوں نے اپنے وسیع علمی معلومات کی روشنی میں فقہ حنفی کی یہ بہترین خدمت انجام دی۔ اس کتاب کی خوبی صرف اسی قدر ہے کہ فقہا رحمہم اللہ کے اقوال سے اوفق بالمصالح اقوال کو لے لیا گیا اور مختلف فیہ کو اسی طرح درج کر دیا گیا، تاکہ جس پر مناسب ہو، عمل کر لیا جائے، گویا اس دیرینہ جمود میں ایک دو مقام تک حرکت کی کوشش کی گئی۔ قرآن اور سنت یا دوسرے ائمہ کے مذاہب کے لحاظ سے شرعی مصالح کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اسی ماحول میں پڑھا اور غالباً والد صاحب کی زندگی میں مسند درس کی زینت بنے۔