کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 87
سوا چارہ نہیں۔ صحابہ نے بھی اجتہاد فرمایا، ائمہ اربعہ اور دوسرے ائمہ مجتہدین نے بھی بوقت ضرورت اجتہاد فرمایا۔ وقت کے ضروری مسائل کو اجتہاد ہی سے سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے، اہلحدیث اور فقہائے مذاہب سب ہی نے اجتہاد کیا اورقیاس، شرعی یا میزانی، وقت کے مسائل میں مخلصی کی راہ پیدا فرمائی۔
حافظ ابن حزم اور امام داؤد ظاہری کا قیاس سے بالکل صرف نظرکا نظریہ ائمہ حدیث میں مقبول نہ ہوسکا، اور فقہائےعراق میں تو اس کی گنجائش ہی کہاں تھی؟اس لیے ائمہ حدیث اور فقہائے عراق میں قیاس سے استفادہ یا نظائر میں احکام کی وحدت کا جہاں تک تعلق ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں، بوقت ضرورت قیاس کو سب درست سمجھتے ہیں، بلکہ ضروری!
شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان دو مختلف اور غیرمعتدل نظریات اور ان کے نتائج کے حسن و قبح سے متاثر ہو کر اپنے تلامذہ اور متوسلین کو یہ وصیت فرمائی:
”وصیت اول ایں فقیر چنگ زدن است بکتاب وسنت در اعتقاد وعمل وپیوستہ بتدبیرہر دو مشغول شدن و ہر روز حصہ از ہر دو خواندن واگر طاقت خواندن ندا اردترجمہ ورقے ازہر دو شنیدنو در عقید مذہب قدماء اہل سنت اختیار کردنواز تفصیل و تفتیش آنچہ سلف تفتیش نکردند اعراض نمودن وبتشکیکات معقولیان خام التفات نکردن و در فروع پیروی علماء محدثین کہ جامع باشند میان فقہ و حدیث کردن ودائماتفریعات فقہیہ رابرکتاب و سنت عرض نمودن آنچہ موافق باشد در خیزقبول آوردن والا کالائی بد بریش خاوند دادن، امت راہیچ وقت از عرض مجتہدات برکتاب و سنت استعنا حاصل نیست و سخن متقشفہ فقہاء کہ تقلید عالمی رادست آویز ساختہ تتبع سنت راترک کردہ اندنشنیدن وبدیشاں التفات نکرون وقربت خدا جستن بدوری ایشاں“(تفہیمات:2/240)
”فقیر کی پہلی وصیت یہ ہے کہ اعتقاد اور عمل میں کتاب و سنت کے ساتھ تمسک کرے اور ان دونوں کو اپنا مشغلہ قراردے۔ ہر دو سے کچھ حصہ