کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 85
غلغلے بلند تھے۔ یکایک حجاز اور مصر میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے حفظ و ذکا کا اثر بڑھا۔ سوڈان سے اندلس تک امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک فقہ کا اقتدار قائم ہوا۔ کوفہ سے ایران اور پھر اتصائے ہند میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی علمی ضیا باریوں نے اپنا اثر ظاہر کیا۔ نجداور اس کے حوالی میں حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی قربانیاں اپنا رنگ لائیں۔ اس کے علاوہ بھی بعض ائمہ اجتہاد نے بعض علاقوں پر اپنا اثر ڈالا، جیسے امام اوزاعی، ابن جریر طبری، حافظ ابن خزیمہ، داؤد ظاہری رحمہم اللہ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان بزرگوں کے فہم اور طریق فکر کو بھی حدیث فہمی میں ضروری قرار دیا گیا۔ ابتدا میں یہ خیال تھا کہ ان حضرات کے افکار کا تتبع ذہن کو لغزش سے بچاسکے گا، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ یہ فکر مندی خود ایک لغزش بن گئی اور سنگ میل راہ ہو گیا۔ !
ائمہ حدیث اور فقہا کے مباحث، احناف اور شوافع کے مناقشات، اسلام کی خدمت کے بجائے بعض مقامات پر اسلام کے لیےنقصان دہ ثابت ہوئے۔ قرآن و سنت کے نصوص باہم تقسیم ہوگئے۔
تحریکات اصلاح:
اپنی تاریخ پر نظر ڈالیے تو معلوم ہوگا، ہر دور کے اہل علم اس مرض کے علاج میں مصروف رہے۔ آوارگی سے بچتے تو جمود آجاتا۔ جمود سے بچنے کی کوشش کرتے تو آوارگی کے خارستان میں دامن اُلجھ جاتا۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ:
پیش نظر گزارشات میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی مساعی اور اُن کے نتائج فکر کا تذکرہ اس نگاہ سے ہے کہ مغل دور کے اواخر میں جب جمود کی گھٹائیں ہند کے افق پر چھائی ہوئی تھیں اورنگ زیب عالمگیر جیسا نیک دل بادشاہ زیادہ سے زیادہ یہی کوشش کرسکا کہ اس نے فتاوی ہندیہ کی صورت میں علما کے ذریعے اسلام کی خدمت کی۔