کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 84
عقیدت مندیوں اور مختلف قسم کے امیال و عواطف کی نیرنگیوں نے مد و جزر کی صورت اختیار کی۔ کبھی ظاہر پسندی اور الفاظ کے تقاضوں نے تنا زور پکڑا کہ قیاس صحیح اور مصالح کو شکست دے دی گئی۔ کبھی آراو مقائیس کی محبت نے ایسا جمود پیدا کیا کہ آرائے رجال کے سامنے نصوص مہجور اور متروک قرارپاگئے۔ قرضی مسائل کا نام شریعت رکھ دیا گیا۔
اس مد جزرکا نتیجہ حافظ ابن حزم کی ظاہریت ہے اور اسی کا نتیجہ فقہا کی کتاب الحیل ہے، جس نے عبادات سے لے کر معاشیات تک دین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ بڑے بڑے فواحش دین کے لبادے میں عبادت اور تفقہ تصورہونے لگے۔ نماز، زکات، حج، حیل کی وبا سے محفوظ نہ رہ سکے۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ظاہریت کا تعلق فن حدیث سے ہے۔ ابن حزم وغیرہ پر ظاہریت اسی لیے غالب رہی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فقہی حیل اور ظاہریت دونوں ایک ہی ذہن کی پیداوار ہیں۔ ابن حزم اور ان کے رفقانے حدیث کے الفاظ کے ظاہر سے ٹھوکر کھائی اور ارباب حیل نے فقہی قواعد کے ظواہر سے دھوکا کھایا۔ شارع کے مقاصد اور مصالح دونوں جگہ نظر سے اوجھل ہو گئے۔ دونوں جگہ الفاظ کی ظاہریت نے معاملہ فہمی اور ذکا کی نگاہوں کو چکاچوند کردیا۔
قیاس سے اگر نظائر کا صحیح جائزہ نہ لیا جا سکےاور شریعت کے مقاصد کا صحیح طور پر لحاظ نہ رکھا جا سکے تو صرف قیاس کے اعتراف یا اسے اصول وادلہ مان لینے سے کچھ بھی حاصل نہیں۔ اکابر کے ارشادات اگر محض اکابر کی برتری کی وجہ سے قابل احترام ہوں تویہ بھی ظاہر پرستی کی ایک قسم ہے اور جمود کا ایک مناسب مظاہرہ!
تاریخ مذاہب پر ایک نظر:
حجاز، بخارا، مصر اور مغرب میں حدیث کا دور دورہ تھا۔ لوگ حدیث پڑھتے پڑھاتے تھے۔ ضبط کی مجلسیں گرم تھی۔ مدراس میں ” حدثنا “اور” أخبرنا “کے