کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 83
تو اسلام کی افتاد فطرت کے خلاف تھا، لیکن یہ جمود تینوں تحریکات میں آیا۔ کبھی ظاہر پرستی اس طرح اذہان پر چھا گئی کہ الفاظ کی پرستش شروع ہوگئی۔ لوگوں نے مقاصد اور مصالح کو نظر انداز کر کے محض الفاظ پر سارا زور صرف کردیا۔ کبھی آرائے رجال اور قیاسات علمانے ذہن کو اس قدر متاثر کیا کہ شخصی آرا وافکار نے تقلید اور جمود کی صورت اختیار کر لی۔ ائمہ اور علما کی تقلید کو واجب اور فرض کیا جانے لگا۔ [1]مقتدر علما کی جزوی مخالفت اس قدر جرم سمجھی جانے لگی گویا وہ پیغمبر کی مخالفت ہے۔ یہ دونوں غلو کی راہیں تھیں۔
یہی مرض زہاد واتقیا میں نمود ار ہوا، وہاں بھی پیر کو مظہر بنایا پیغمبر کا نعم البدل سمجھا جانے لگا۔ بزرگوں کے عادات و رسوم اور اور وظائف کو وحی کا مقام دیا گیا۔ فقرو حال کو شریعت اور وحی کا رقیب ظاہر کیا گیا۔ شرعی حلال کو حرام اور حرام کو حلال کہنے میں ان حضرات کوکوکوئی تامل نہ تھا۔ یہ بھی ایک جمود ہے۔ جو اسلام کے مزاج اور طبیعت کے بالکل خلاف ہے، اسلام ایک متحرک دین ہے، اس میں کتاب وسنت کو اساس قراردے کر ہر دور میں فکری آزادی کی نہ صرف حمایت فرمائی گئی ہے، بلکہ حریت فکر کے لیے ممکن طور پر راہیں، ہموار کردی گئی ہیں اور جمود اور تقلید کو روکنے کی ہر کوشش عمل میں لائی گئی۔
جمود شکن تحریکات
اسلام کی اشاعت کے مختلف ادوار میں اس کےاثر و رسوخ اور مختلف اذہان کی
[1] ۔ ائمہ اربعہ اور باقی ائمہ سنت اور ان کے علوم کے ساتھ تعلق کی جو آج جامد صورت پیدا ہو چکی ہے، معلوم ہے ابتدا میں نہیں تھی، نہ ائمہ اسے پسند فرماتے اور نہ ان کے تلامذہ۔ ہارون نے امام مالک رحمۃ اللہ کے سامنے موطا کی آئینی حیثیت کا جب ذکر کیا تو امام مالک رحمۃ اللہ نے سختی سے اس کا انکار کیا۔ (الدیباج:ص200)
ائمہ اربعہ نے اپنی تقلید سے روکا۔ حجۃ اللہ اور کتاب العلم لابن اعبدالبر وغیرہ میں ان کے ارشادات بصراحت موجود ہیں۔ تعجب ہے کہ اکابر دیوبند آج بڑی جرأت سے اسی جمود اور تقلید کی دعوت دیتے ہیں اور اسے واجب تک کہنے سے گریز نہیں فرماتے، حالانکہ یہ صاحب شریعت کا وظیفہ ہے۔ معلوم ہے کہ تقلید اور اس جمود کا دور چار سو سال بعد ہوا۔ (مؤلف)