کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 79
میں محصورہوتا ہے نہ دوسرے اہل تحقیق سے نفرت اور بغض ہوتا ہے، اور خود ائمہ رحمہم اللہ نے اپنے متعلق کبھی یہ متاثر نہیں دیا کہ حق صرف ہمارے دامن سے وابستہ ہے، اور نہ یہ تاثر ہی دیا ہے کہ ہماری باتوں کو بلادلیل محض خوش فہمی اور عقیدت کی بنا پر قبول کیا جائے۔
انبیا علیہم السلام فکرونظر کی دعوت دیتے تھے، ان کے اتباع تقلید اور جمود کی دعوت کیسے دے سکتے تھے؟
میری رائے میں یہ تینوں مقام اس قدر ظاہر اور واضح ہیں کہ ان پر کسی طویل بحث کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، اس کے باوجوددنیا میں ایسے حضرات موجود ہیں جو انکار حدیث کو بطور تحریک چلانا چاہتے ہیں، ان کا مرکزی نقطہ یہ ہےکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وفعل و سکوت، اجتہاد دین میں حجت نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی آیت کی تفسیر فرمائیں، ہمیں حق ہے کہ ہم ان کے خلاف تفسیر کریں اور صرف اپنی تفسیر کو صحیح سمجھیں، لیکن اس شناعت کے لیے عنوان یہ رکھا گیا ہے کہ قرآن مکمل ہے اور اسناد کی وجہ سے حدیث پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ یہی حال قریباً بعض دوسرے بزرگوں کا ہے۔ وہ بدعی رسوم اور مشرکانہ عادات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور بزرگوں کے ساتھ ربط و عقیدت کا نام دیتے ہیں اور ائمہ سے علمی استفادے کا نام تقلید رکھ دیا گیا ہے۔ ((وبينهما مفاوز تنقطع فيها أعناق الإبل))
گزشتہ ایام کسی ضرورت یا کسی تاثر کے ماتحت میں نے چند مضامین ”الاعتصام“میں لکھے، جو بعض حلقوں میں بہت پسند کیے گئے۔ بعض حلقوں میں کافی ناراضی اور ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا گیا۔ کسی چیز کے موثر ہونے کی یہی دلیل ہوتی ہے کہ وہ اپنے لیے مختلف حلقے پیدا کر لے اور نقد و نظر کا تختہ مشق بنے۔ مضمون جب چھپ رہا تھا، بعض محترم اور عزیز دوستوں نے اس کے بعض حصوں پر دوستانہ اور محققانہ تنقید فرمائی۔ جزاهم الله احسن الجزاء۔