کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 78
مراحل ہیں۔ اس تحریک کی قیادت کے عمل اور فکر کا ماحصل یہ ہے:
وہ قرآن کو مفصل کہنے کے باوجود مجمل اور قابل تشریح و تفسیر سمجھتے ہیں اور قرآن کی تفسیر اور تشریح کے لیے لٹریچر شائع کرتے ہیں، جس کا مطلب ظاہر ہے کہ قرآن عزیز کو ان حضرات کی تشریح کی ضرورت ہے۔ ان کے ہاں اس تشریح کو قبول کرنا گویا قرآن کو ماننا اور قبول کرنا ہے، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے رفقائے کرام قرآن کےمقاصد کو بیان کریں تو اسے یہ حضرات نہ قبول کرتے ہیں نہ اس کی ضرورت سمجھتے ہیں، بلکہ قطعاً ناپسند کرتے ہیں۔ کوئی حدیث سمجھ میں نہ آئے، مگر اس کا انکار کردینا سمجھ میں آتا ہے، ائمہ حدیث رحمہم اللہ نے جن احادیث کو اپنے معیار پر نہیں پایا، ان کا انکار کردیا یا ان کو موضوع فرما دیا، لیکن چند احادیث سمجھ میں نہ آئیں تو پورے ذخیرہ اور فن کا انکار بالکل سمجھ میں نہیں آتا، عقل کو اس پر حیرت ہوتی ہے۔
اسی طرح کچھ بزرگ چند رسمیں اور چند نعرے لگا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اسلام کی خدمت کا دعویٰ فرماتے ہیں۔ ان رسموں کو اسلام اور ایمان کی بنیادسمجھنا اور ان سے انکار یا ان پر انکار کو اسلام کی مخالفت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے منافی سمجھنا عجیب بات ہے، حالانکہ قرون خیر اور ائمہ اسلام فقہائے محدثین کے آثار میں ان رسوم کا ذکر تک نہیں اگر کہیں تھوڑا بہت پتا چلتا ہے تو ان بزرگوں نے ان رسوم کو نفرت کی نظر سے دیکھا ہے۔ اسلام ایسے فعال مذہب کا انحصار چند رسموں اور نعرو ں پر ہو، ضمیر اس سے اباء کرتا ہے۔ اسی طرح مروجہ تقلید اور جمود کا آغاز تو غالباً طبعی تاثر ہے، جو ایک شاگرد استاد سے اور تلمیذ شیخ سے اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ یہ طبعی اور قددرتی ہے، اس کے جواز یا عدم جواز کی بحث بے فائدہ ہے۔ یہ تاثر ناگزیرہے اور یہ تاثر ہمیشہ باندازتحقیق اور بحث ونظر کی راہ سے ہوتا ہے، اس میں جمود نہیں ہوتا۔ دوسرے ائمہ اجتہاد سے حق کی نفی یا نفرت کے آثار اس میں نہیں پائے جاتے، بلکہ ایک تحقیقی تاثر اور فکرو نظر کی راہوں میں کسی قدر ہم آہنگی اور ہمواری ہوتی ہے۔ ان فقہی فروع میں نہ حق کسی ایک